میاں صاحب اہل علم کی مجالس کااہتمام کیاکرتے تھے۔ اُن کی علمی سرگرمیوں کی سرپرستی فرماتے تھے۔ علمی اوردینی اداروں کے قیام میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ شرقپورشریف میں علماء اورمبلغین کی تربیت کے لیے ایک معیاری ادارہ 1958ء ’’دارالمبلغین حضرت میاں صاحب‘‘ کے نام سے شرقپور شریف میں قائم کیا،جس میں مستنداورتجربہ کار مدرسین کوتعینات کیاگیا۔ جس کے فیض یافتگان نے بہت سی علمی کتابوں کی اشاعت کااہتمام کیا۔ آستانہ عالیہ شرقپورشریف سے شائع ہونے والے ’’نوراسلام‘‘کوایک مؤثر ذریعہ تبلیغ بنایااوراس کے عظیم الشان علمی خاص نمبر نکالے
(۱) شیرربانی نمبر
(۲) امام اعظم نمبر
(۳) اولیائے نقشبند نمبر
(۴) مجدد الف ثانی نمبر ’’تین جلدیں‘‘
(۵) حضرت ثانی لاثانی نمبر
(۶) ماہنامہ نوراسلام کاپچاس سالہ گولڈن جوبلی نمبر (تین جلدیں)
بعدازاں لڑکیوں کی تعلیم تربیت کے لئے 1993ء میں’’جامعہ حضرت شیرربانی برائے طالبات‘‘کی بنیاد رکھی۔اس ادارہ کے قیام سے علاقہ شرقپورشریف کی طالبات کو بالخصوص اوردوسرے قصبوں، دیہاتوں اورشہروں کی لڑکیوں کوبالعموم بہتر اورمؤثردرس گاہ میسرآگئی۔
حضورفخرالمشائخ قبلہ عالم الحاج میاں جمیل احمدشرقپوری علیہ الرحمہ علمِ شریعت اورعلمِ طریقت سے مالامال تھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے روحانی اورعلمی میدان میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ زمانہ عش عش کراٹھا۔ آپ علیہ الرحمہ ساری زندگی مدرسے قائم فرمائے، مسجدیں بنوئیں، لائبریریاں تعمیرکیں،کتابیں لکھوائیں اور عام کیں۔ میرے جیسے بے بضاعت کی کئی کتابوں کے ایڈیشن خریدکر مفت تقسیم کیے اورعلم دوستی کاثبوت فراہم کیا۔ ماہنامہ نوراسلام کے خصوصی نمبر مختلف موضوعات پرمبنی ہیں اورآپ علیہ الرحمہ کے علم وفکرکا شاہکارہیں۔ آپ علیہ الرحمہ کے سارے عالمِ اسلام کے جلیل القدرعلماء کے ساتھ رابطے اورگہرے مراسم تھے اورموجودہ زمانے کے مسائل پرگہری نظرتھی۔ مولاکریم نے آپ علیہ الرحمہ کونگاہِ بلندسے سرفرازفرمایاتھا۔ اس لیے آپ علیہ الرحمہ نے تعلیماتِ مجددیہ کے فروغ اوراشاعت کی ضرورت کومحسوس کیااور’’تحریک یوم مجددِالفِ ثانی علیہ الرحمہ‘‘ کوملک بھر میں عام فرمایا۔ یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ اگراہل سنت وجماعت حضرت مجددِ الفِ ثانی قدس سرہ کی تعلیمات کوعام کریں تومختلف مسالک کے درمیان قائم خلیج کوکم کیاجاسکتاہے۔ کیونکہ ان کی مجددیت پرسب کااجماع ہے۔ اس حقیقت کو حضورقبلہ فخرالمشائخ علیہ الرحمہ نے خوب سمجھااورسمجھایا۔ آپ علیہ الرحمہ نے پاکستان کی تمام تحریکوں میں بھر حصہ لیااوراپنے خدادادعلم وفضل سے قوم وملک کی رہنمائی۔ آپ علیہ الرحمہ کی صورت وسیرت میں حضرات اولیاء کرام علیہم الرحمہ کافیضان موجزن تھا۔ آپ علیہ الرحمہ حضرت بایزیدبسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے مطابق رہے کہ مردِکامل سورج کی طرح شفیق، سمندرکی طرح عمیق اوردریاکی طرح رفیق ہوتاہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
حضورفخرالمشائخ علیہ الرحمہ شریعتِ محمدی کی عملی تصویرتھے۔ صوم وصلوٰۃ کیازحد پابندتھے۔ تحریکی وعملی زندگی کے علمبردارتھے۔ آپ علیہ الرحمہ نے اپنے متوالوں اورمستانوں کوسنتِ مطہرہ کادرس دیا۔ ہزاروں افراد کوبے عملی اوربدعقیدگی کے قعرِمذلّت سے نکال کر سراپاعمل بنایااوربارگاہِ مصطفی ﷺتک پہنچایا۔ آج بھی آپ علیہ الرحمہ کے متوسلین اورمریدین کودیکھا جائے توغالب ترین اکثریت باریش دکھائی دے گی۔ آپ علیہ الرحمہ کے آستانے پر شریعت کاپہرہ نظرآئے گا۔ آپ علیہ الرحمہ جدھر سے گزرے شریعت کے پرچم بلندکرتے چلے گئے۔
علم اورعمل کی روحِ رواں اخلاص ہے۔ اخلاص ایک ایسی طاقت ہے جس کے سامنے شیطان بھی بے بس اوربے کس ہے۔اس نے خود اعتراف کیا ہے کہ مولا میں تیرے بندوں کواغواکروں گامگر تیرے مخلص بندوں پر میراداؤ کارگرنہیں ہوگا۔ حضورفخرالمشائخ علیہ الرحمہ نے اپنے علم وعمل کواخلاص کے نور سے منورفرمایا۔ آپ علیہ الرحمہ کامال، آپ کی اولادحتٰی کہ آپ کی جان دینِ برحق، عشقِ رسول ﷺ، ختم نبوت اورفروغِ فیضان ولایت کے لیے وقف کی تھی۔ آپ علیہ الرحمہ نے قیدوبندکی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگراپنے اخلاص میں فرق نہ آنے دیا۔ آپ علیہ الرحمہ کالوگوں ساتھ تعلق صرف اورصرف اسلام اوربزگانِ اسلام کی خاطرتھا۔ آپ علیہ الرحمہ اہل سنت وجماعت کے مخلص رہنماتھے۔ اس لیے اکثراوقات احباب کے سامنے اہل سنت وجماعت کی زبُوں حالی کااظہارکرتے رہتے تھے اوراس کی ترقی کے لیے دعاگورہتے تھے۔مولاکریم آپ علیہ الرحمہ کے مزارپاک پر اربوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین!