دنیا میں جس نے قدم رکھا ہے اُسے ایک نہ ایک روز اپنے اصلی مرکزکی طرف جاناہے۔ دنیا کاایک ایک ذرہ اس کی ناپائیداری اور بے ثباتی پر گواہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے لاتعدادانبیاء علیہم السلام اپنی عبادت اورتبلیغ کے لیے معبوث فرمائے اوروہ اپنی مبارک زندگیاں پوری کرنے کے بعداپنے آخری سفر پرروانہ ہوئے۔اسی طرح خُدا کے بڑے بڑے پیارے اوربرگزیدہ بندے دنیامیںآئے مگر بالآخر چند روزہ مسافرانہ زندگی بسر کرنے کے بعد انہیں اپنے اصل مرکزکی طرف جانا پڑا۔
لیکن جب کوئی خُداا و رخلق کا محبوب بندہ دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو پتھر کادل بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہتا۔ حقیقت میں صاحبزادہ میاں جمیل احمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال کوئی معمولی بات نہ تھی۔ جِس جِس کے کان میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی جاں گزاخبر پہنچی اور معلوم ہوا کہ آپ اس دنیا سے پردہ فرماگئے ہیں ۔وہ ایسے قلق و اضطراب میں گرفتارہوا جو جگر کوپاش پاش کر دیتاہے۔ آپ کی شریف ومقدس ذات سے تمام عالم اسلام کو،پاکستان کو عموماً،پنجاب اور شرقپورشریف کو خصوصاًفخرو ناز حاصل تھا۔آپ ایک فریدِ عصر اور یگانہ روزگار تھے۔
میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی منزل کویادرکھنے والے وہ مسافرحق تھے جواپنی جلوہ منزل سے اپنے چراغ راہ کومنوررکھتے تھے۔ دنیائے فانی سے بقائی حیات کی وادی میں اترنے سے چندروز پہلے فرمایا :مجھے اپنی والدہ مرحومہ کی باتیںیادآتی ہیں کہ لقائے محبوب کے جویاکواُن کی منزل تک بہت جلدی پہنچادیاکرتے ہیں۔میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی دائمی آرامگاہ میں اپنے بزرگوں کے سایہ عاطِفت میں فوزالمرام ہوکر امرہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر خورشیدرضوی کی زبان سے نکلایہ شعر عالم حیرت میں باربار یادآتاہے۔
وہ جو لوگ اھل کمال تھے وہ کہاں گئے
وہ جو لوگ اپنی مثال تھے وہ کہاں گئے
حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمہ اللہ تعالیٰ اس بے ثبات دنیا کی 18دن 6 ماہ80سال کی زندگی گزار کرشام5بجکر5منٹ پربروز بدھ4 ذیقعد1434ھ بمطابق 11ستمبر2013 ء کواس دنیا فانی سے رحمت خُدا وندی اور جنت میں انتقال کرگئے تھے۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ط۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خُوب تھا صبح کے تارے سے بھی تیر ا سفر