حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی پیدائش سے قبل ایک فقیر صاحب شرقپور تشریف لائے تھے اور اکثر آپ کے محلہ میں پھرتے اور لمبے لمبے سانس لیتے جیسے کوئی خوشبو لے رہا ہے۔ دریافت کرنے پر فقیر صاحب نے جواب دیاکہ اس کُوچہ میں خُدا کے ایک مقبول بندے کی رُوح آنے والی ہے۔ مَیں اُس کی تاک میں ہُوں۔الغرض!اس قسم کی اور بہت سی روایات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ مادر زاد ولی تھے۔آپ کی ولادت کا سال ۱۸۶۳ ء بمطابق۱۲۷۹ہجری ہے۔ والدہ ماجدہ کانام مائی عائشہ رحمۃ اللہ علیہاتھا جو میاں بدرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ قصوری کی عصمت مآب اورمحترمہ صاحبزادی تھیں۔ ولادت کے ساتویں روز آپ کا اسم گرامی شیر محمد رکھاگیا۔
حضرت میاں غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ اس بلند اقبال اور ہونہار بچے (شیر محمد)سے بیحد محبت رکھتے تھے۔ مولوی غلام رسول رحمہ اللہ تعالیٰ کے انتقال کا وقت قریب آیاتو اُس وقت میاں صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو جن کی عمر تقریباً ایک برس کی تھی، اپنے سینہ سے لگا کر روحانی فیضان سے مالا مال کردیا۔ مسکینی، غریبی،کم گوئی،تفکر،آہستگی سے بات کرنا۔ غرضیکہ بہت سی خصلتیں جو بچوں میں کم دیکھی جاتی ہیں، آپ میں موجود تھیں۔ حیااورشرم کی یہ حد تھی کہ آپ جب کُوچہ میں گزرتے تو سر پر چادر اوڑھ لیتے۔ محلہ کی عورتیں کہا کرتی تھیں کہ یہ ہمارے محلہ میں لڑکی پیدا ہوگئی ہے ۔
آپ مسجد میں گوشۂ تنہائی اختیار کرتے اور اللہ کاذکر کرتے۔ حضرت میاں حمیدالدین صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فارسی کی چند کتب آپ کو پڑھائیں۔ آپ نے اس فن اورنقاشی میں اس قدر مشق کی کہ بڑے بڑے کاتب اورخوش نویس اورنقاش آپ کے قطعات ،مکتوبات اور بیاضیں دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ اگرچہ علمائے ظاہر ہمیشہ آپ پر کمعلمی کا طعن رکھتے رہے لیکن وہ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ ان ظاہری اکتسابی علوم کے علاوہ ایک اور علم بھی ہے جسے اصطلاح قرآن مجیدمیں علمِ لُدنی کہتے ہیں اور جس سینہ کو اللہ تعالیٰ علمِ لُدنی سے نوازتے ہیں اُسے علمِ ظاہری کی منطقیانہ بھول بھلیوں سے پاک وصاف رکھتے ہیں۔ مدرسہ وہبی کے تعلیم یافتوں کا رنگ ڈھنگ بالکل سادہ ہوتا ہے۔ حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ کاعلم بھی اسی قبیل سے تھا اوراسی فیضان الٰہی کا نتیجہ تھاکہ آپ فارسی اوراردو زبان کی کتابیں بلا روک ٹوک پڑھ لیتے تھے۔
حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کسی ہادی و مرشد کی تلاش میں تھے۔ جس کی وساطت سے آپ اس مقامِ تک پہنچ جائیں جو آپ کے پیشِ نظر تھااور چونکہ اس مقام تک بدوں توسل مرشد کامل کے سخت دشوار بلکہ غیر ممکن ہے۔ حضرت میاں امیر الدین رحمۃ اللہ علیہ جیسے پیر کامل واکمل مل گئے۔ جن کی برکت،صحبت اور انوارِ ہدایت سے آپ نے اشغال طریقہ نقشبندیہ میں تھوڑی ہی مدت کے اندر کمال پیدا کرلیا۔
آخر دوشنبہ کے روز ۳ربیع الاول ۱۳۴۷ہجری بطابق ۲۸اگست ۱۹۲۸عیسوی رات کے گیارہ بجے آپ کی روح پاک قفسِ عنصری سے پروازکرکے عالمِ قدس میں پہنچ گئی اور یہ آفتابِ حقانی اپنی عمرکے پینسٹھ مرحلے طے کرنے کے بعد روپوش ہوگیا۔