آپ خانوادہ شیر ربانی شرقپور شریف کے چشم وچراغ ہیں۔ اور فخر المشائخ صاحبزادہ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری کے نور نظر ہیں۔ آپ ۳ اپریل ۱۹۶۰ بمطابق ۶ شوال ۱۳۷۹ بروز اتوار پیدا ہوئے۔ آپ حضرت جمیل احمد صاحب کے دوسرے فرزند ہیں۔ حضرت صاحبزادہ میاں خلیل احمد صاحب آپ کے بڑے بھائی ہیں۔ آپ کا گھرانہ علمی، مذہبی اور روحانی ہے۔ حضرت میاں صاحب والی مسجد کے امام قاری غلام محمد رحمتہ اللہ علیہ سے آپ نے قرآن مجید پڑھا۔ اور سکول میں داخل ہو کر دینوی تعلیم کا آغاز کیا۔ جسے ایف اے تک مسلسل جاری رہی۔
چونکہ آپ کا زہن شروع سے دینی اور مذہبی تھا لہذا کالج کی تعلیم کے دوران کالج کی تحریکات میں شرکت کرتے جن سے دینی پہلو کی تربیت ہوتی ہو۔ ایسی تحریکات کا انحصار زیادہ تر کالج کی یونین پر منحصر ہوتا ہے۔ لہذا اس یونین کو دینی بنانے کے لئے کالج یونین کے انتخابات میں شرکت کرتے اور اس انداز سے انتخاب لڑتے کہ آپ کا پورا پینل جیت جاتا۔ اس طرح کالج کی فضا دینی اور مذہبی رہی اور کالج سے فارغ ہونے کے بعد آپ کالج کے انتخابات میں طلباء کی رہنمائی کرتے رہے۔
اس سے آپ مسجد کے مولوی اور خطیب تو نہ بن سکے البتہ الیکشن کی مہم کو کامیاب بنانے اور الیکشن لڑنے اور جیتنے میں ماہر ہو گئے۔ ۱۹۹۳ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے تو جمعیت علمائے پاکستان نیازی گروپ کے ٹکٹ پر صوبائی انتخابات میں شرکت کرنے کا اعلان کر دیا۔ لوگ حیران تھے کہ صاحبزادہ صاحب کی عمر ابھی اس کام کے لئے پختہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی الیکشن لڑنے اور جیتنے کا تجربہ ہے۔ اگر خدانخواستہ ناکامی ہوئی تو اچھا نہ ہو گا۔ مگر آپ بڑے مطمئن تھے۔ انتخابی جلسوں میں خطابات میں آپ بڑے واشگاف الفاظ میں کہتے کہ میں حضرت شیر ربانی کی اجازت سے کھڑا ہوا ہوں۔ کامیابی یقینی ہے۔ آپ کے مقابلے میں بڑے بڑے تجربہ کار امیدوار تھے۔ بلکہ سیاست ان کے گھر کی باندی تھی۔ مگر آپ میدان میں آگئے۔ آپ نے اپنی الیکشن مہم کو اس سلیقے اور قرینے سے چلایا کہ ہر دن انہیں کامیابی کی منزل کے قریب کرتا رہا۔
پھر لوگوں نے دیکھا کہ صاحبزادہ صاحب اپنی نشست پر کامیاب ہو گئے۔ اس طرح ۱۹۹۷ء میں بھی پھر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
بحیثیت ایم پی اے آپ اسمبلی میں بڑے متحرک رہے۔ اپنا مذہبی تشخص قائم رکھا اور اپنے جسم کی دینی قبا پر کوئی بھی بدنما دھبہ نہیں لگنے دیا۔ نفاز اسلام کی قراداد آپ نے پیش کی۔ جسے متفقہ طور پر پاس کر لیا گیا۔ دوران اجلاس مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے آپ کے کہنے پر کاروائی روک دی گئی۔ یارسول اللہﷺ کے نعرے آپ کی وجہ سے پہلی بار اسمبلی ہال میں بلند ہوئے۔
آپ سے سوال کیا گیا کہ سیاست میں آپ نے کیا دیکھا ہے۔ کیا کھویا اور کیا پایا ہے اور کیا کر کے دکھایا ہے؟
فرمانے لگے سیاست میں الجھائو زیادہ ہے۔ سیاست کا زیادہ کاروبار جھوٹ پر چل رہا ہے۔ اور یہ سیاست کا قصور نہیں ہے۔ بلکہ سیاست کے میدان میں آنے والوں کا قصور ہے۔ وہ بذات خود اچھے نہیں ہوتے لہذا سیاست بدنام ہو جاتی ہے۔ جو اچھے لوگ ہوتے ہیں وہ سیاست میں آنا پسند نہیں کرتے۔ دینی سوچ رکھنے والوں سے لوگ کہتے ہیں کہ آپ غلاظت کی راہ میں کیوں قدم رکھتے ہیں۔ آپ کو تو اللہ نے پہلے ہی بڑی عزت دے رکھی ہے۔
صاحبزادہ صاحب نے فرمایا اگر دین دار لوگ منتخب ہو جائیں تو اسمبلی کی سیاست اچھی ہو سکتی ہے۔