حضرت میاں غلام احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت میاں غلام احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت میاں غلام احمدعلیہ الرحمۃکی ولادت باسعادت:

حضرت میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ 1924 ؁ء کوحضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کے ہاں شرقپورشریف میں پیداہوئے اورآپ رحمۃاللہ علیہ کانام ’’غلام احمد‘‘رکھاگیااوراسی نام سے فیضان شیرربانی اپنے مریدین اور عقیدت مندوں تک پہنچاتے رہے۔ہزاروں لوگ آپ کے فیض سے فیضیاب ہوئے۔

حضرت میاں غلام احمدعلیہ الرحمۃکی تعلیم وتربیت:

حضرت میاں غلام احمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر وقت میں قرآن مجیدپڑھ لیا۔قرآن مجیدکی تعلیم کے بعد اسلامیہ پرائمری سکول شرقپورشریف میںآپ رحمۃ اللہ علیہ کو داخل کروایاگیا۔ پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول شرقپورشریف میں داخلہ لیااورآپ رحمۃ اللہ علیہ نے میڑک کاامتحان بھی امتیازی پوزیشن میں پاس کرلیا۔حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے طبیہ کالج،لاہورمیں داخلہ لیااور وہاں سے حکیم حاذق کاامتحان بھی امتیازی پوزیشن میں پاس کرلیا۔

چونکہ حضرت ثانی لاثانی رحمۃ اللہ علیہ کا طب سے تعلق رہاتھا۔اس لیے آپ نے اپنے ہونہاربیٹے میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ کومیٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعدذوق کے مطابق طبیہ کالج، لاہورمیں داخل کروایا۔ میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ نے طب کاامتحان امتیازی پوزیشن میں پاس کیا۔ 
آپ نے قرآن ، حدیث، فقہ، تاریخ اوردیگر فنون کاگہری نظرسے مطالعہکیا۔ 

حضرت ثانی لاثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادے میاں غلام احمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کوقرآن ، حدیث، فقہ، تاریخ اور دیگرفنوں کی تعلیم دلوائی۔ حضرت شیرربانی شرقپوری رحمۃاللہ علیہ میاں غلام احمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کواپنے سینہ مبارک پر لٹالیتے تھے۔ایسے ان کی نظرکرم سے آپ رحمۃاللہ علیہ کو علم لدنی حاصل تھا۔ خطبہ جمعہ مبارک کے موقع پر آپ قرآن وحدیث کے اسرارورموز اورفقہی مسائل واحکام بہترین انداز میں بیان فرماتے تھے۔

حضرت میاں غلام احمدعلیہ الرحمۃکاتحریک قیام پاکستان میں حصہ لیناحضرت میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی سیاسی زندگی کاآغاز تحریک قیام پاکستان سے ہوتاہے۔آپ نے اس تحریک میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ پاکستان کی تاریخ میں چلنے والی ’’تحریک ختم نبوت‘‘میں بھرپورحصہ لیااور1977ء میں تحریک نظام مصطفی ﷺمیں بھی عملی حصہ لیا۔ بلکہ عملاًجمعیت العلماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لیایعنی حلقہ شرقپورشریف سے ’’قومی اتحاد‘‘کے ٹکٹُ پر الیکشن لڑا۔ آپ جمعیت العلماء پاکستان کی سرپرستی فرماتے رہے۔ 1977ء کے الیکشن کے موقعہ پر آپ نے اعلان فرمادیاتھاکہ جس نے ’’قومی اتحاد‘‘کوووٹ نہ دیاوہ ہمارامرید نہیں ہے۔ اس طرح آپ کاشمار ان مشائخ عظام میں ہوتاہے جنہوں نے تحریک قیام پاکستان کے لیے عملی جدوجہدکی۔

حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سیف بے نیام تھے۔آپ رحمۃاللہ علیہ باطل قوتوں کوہمیشہ للکارتے رہے۔ آپ رحمۃاللہ علیہ نے تحریروتقاریرکواس کاذریعہ بنایا۔شرقپورشریف میں باطل مذاہب میں شیعہ حضرات پیش پیش ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے مسلک ومذہب کے مطابق پوری قوت سے گھوڑانکالنے کی کوشش کی لیکن حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی کوششوں سے وہ آج تک اپنے اس مذموم مقصدمیں کامیاب نہ ہوسکے۔

شیعہ حضرات نے جامع مسجد ’’شیرربانی‘‘شیرربانی چوک ، شرقپورشریف پربھی قابض ہونے کی تحریک چلائی لیکن آپ رحمۃاللہ علیہ کی سخت مزاحمت کی وجہ سے اپنے مشن میں کامیاب نہ ہوسکے۔ آپ رحمۃاللہ علیہ کی پُرخلوص کوشش کے سبب اہل تشیع حضرات کے علاوہ دوسرے عقائد کے حامل لوگ بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

کشف وکرامات حضرت میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ:

شمس المشائخ حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ صاحب کرامت ولی تھے۔آپ کی کرامات بے شمارہیں جن میں سے چندایک بطور حصول برکت پیش کی جاتی ہیں۔ شمس المشائخ حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کاہرعمل اسلامی اصولوں اورسنت نبوی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِوَاٰلِہٖٖٖ وَاَصْحَابِہٖٖٖ وَسَلَّمْ کے عین مطابق تھا۔ غیرشرعی کام کرناتوکجااسے دیکھنابھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ یہ آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔کرامات کااظہارمتقی اور پرہیزگارسے ہوتاہے ۔

وصال مبارک:

صاحبزادہ حضرت میاں غلام احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ نے73سال کی عمرمیں11جولائی 1997 ؁ء بمطابق5ربیع الاول 1418 ؁ھ بروز

جمعتہ المبارک تہجدکے وقت سجدہ کی حالت میں وصال فرمایا۔

اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ o

آپ کے برادرِاصغرحضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی نگرانی میں مناظرِاسلام حضرت علامہ مولانا عبدالتواب صاحب صدیقی اورعلامہ قاری غلام عباس صاحب خطیبِ اعظم نوشہرہ ورکاں نے ہفتہ کی رات کودوبجے تک غسل اورتجہیزو تکفین کاعمل مکمل کرلیاتھا۔

آپ کے وصال کی خبر ریڈیو، ٹی وی اوراخبارات کے ذریعے وطن عزیز کے طول وعرض میں پہنچ گئی۔ عقیدت مندوں، خدام اور متوسلین کی آمد کا سلسلہ جمعتہ المبارک کے دن ہی شروع ہوگیا۔ حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندمجددی رحمۃاللہ علیہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپورشریف نے بروزہفتہ صبح دس بجے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کو شرقپورشریف کے تاریخی اورمشہورقبرستان ڈوھرانوالہ میں حضرت شیرربانی رحمۃاللہ علیہ کے دربارعالیہ میںآپ کے دائیں پہلومیںآپ مدفون ہوئے۔ 

دنیا میں جس نے قدم رکھا ہے اُسے ایک نہ ایک روز موت کا تلخ اور ہلاکت آفرین ساغر ضرور منہ سے لگانا پڑے گا۔اس دنیاکی ساری چیزیں ایک دن صفحہ ہستی سے مٹ جانے والی ہیں۔ ہر انسان کو معلوم ہے کہ جوکچھ وہ کررہا ہے یاآئندہ کرے گااس کا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔ دنیا کاایک ایک ذرہ اس کی ناپائیداری اور بے ثباتی پر گواہ ہے۔ بڑے بڑے خداکے پیارے اوربرگزیدہ بندے دنیامیںآئے۔ مگر بالآخر چند روز مسافرانہ زندگی بسرکرکے انہیں اپنے اصلی مرکزکی طرف رجوع کرناپڑا۔ بڑے بڑے عظیم الشان بادشاہ اورمشہور و نامور تاجدار جن کی سطوت و جبروت کے پُر شوکت و شاندار جھنڈے دنیا کے چاروں کونوں میں گڑے نظر آتے تھے۔ موت نے انہیں ایسا گمنام کیا کہ آج ان کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔

 

رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ وبوباقی

رہے گا اے معبود ایک تُو باقی

 

بقا کسی کو نہیں ہو کوئی ولی کہ نبی

یہ سب تجھی پہ مٹینگے رہے گا تُو باقی

 

اگرچہ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا المناک اور دل بجھادینے والا خیال برقی قوت بن کر تمام جہان میں دوڑرہا ہے اور زمانہ اپنے حیرتناک انقلابات کے نمونے مشاہدہ کراکے یہ سبق پڑھا رہا ہے کہ دنیا ایک بے حقیقت چیز ہے۔ اورجینا مرنا ایک معمولی بات ہے۔ اس پر خوش ہونے اوراس پر رنج کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔

لیکن جب کوئی خدا و خلق کا محبوب دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو پتھر کادل بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہتا۔ حقیقت میں حضرت میاں غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال کوئی معمولی انتقال نہیں۔ جس جس کے کان میں حضرت میاں غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی جاں گزا خبر پہنچی اور معلوم ہوا کہ آپ دنیا سے رحمت خدا وندی اور اس کی جنت میں انتقال کرگئے ہیں۔ وہ ایسے قلق واضطراب میں گرفتارہوا جو جگر کوپاش پاش کیے دیتاہے۔ 

حضرت میاں غلام احمدصاحب شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ مرگئے ہیں۔ وہ پہلے بھی زندہ تھے اور اب بھی زندہ ہیں۔ بلکہ آپ کی موجودہ زندگی سابقہ زندگی سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ اب آپ اپنے محبوبِ حقیقی سے جاملے ہیں اور توحید کے اس بحرِناپیدا کنار میں غوطے لگارہے ہیں جو آپ کی زندگی کااصلی اور حقیقی منشاتھا۔