بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کے تین نہایت اہم فیصلے ہو جاتے ہیں۔
۱۔ عمر کتنی ہو گی۔
۲۔ رزق کس قدر پائے گا۔
۳۔ سعید ہو گا یا شقی۔
ان تینوں فیصلوں کا نتیجہ عالم غیب میں ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ بالآخرکیا ہو گا۔ لیکن ایسا شخص زندگی کی جو راہیں متعین کرتا ہے۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا انتخاب درست ہے یا غلط۔ اس کا چلنا پھرنا کام کرنے کا سلیقہ اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی جہتیں شروع میں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
یہ نشان یہ سلیقے اور قرینے صاحبزادہ میاں جلیل احمد کی زندگی میں اس وقت ہی دیکھے جانے لگے جبکہ ابھی بچے تھے۔ چونکہ میاں جلیل احمد کا گھرانہ شروع سے ہی ایک مذہبی اور دینی گھرانہ چلا آ رہا ہے۔ روحانی خانقاہ ہونے کے باعث بڑے اجل علما اور بزرگوں کی آمدورفت کا سلسلہ قائم ہے۔ میاں جلیل احمد کی نشست و برخاست ایسے بزرگوں سے رہی ہے جس سے یہ بات ان کے ذہن میں واضح ہو گئی کی دین اسلام ہی کامیابی کا راستہ ہے اور اس کے ذریعے ہی ہم ایک پرسکون اور پروقار زندگی گزار سکتے ہیں۔ لیکن معاشرتی حالات اس کی تائید نہ کرتے۔ دین کی سمجھ بوجھ نہ رکھنے والوں سے بعض ناپسندیدہ باتیں سننا پڑتیں۔
یہ لوگ مادہ پرست ذہن رکھنے والےہیں۔ ان کے نزدیک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنا ناممکن ہے۔ اور یہ بات اس وقت زیادہ تقویت پکڑتی ہے جو مولوی حضرات بھی نجی محفلوں میں یہ بات کہہ جاتے کہ دنیوی نظام حیات کے تقاضے اب بدل چکے ہیں اور یہ بات سچ ہی لگنے لگی ہے کہ آج سودی اور بینکاری نظام کے بغیر ہم آگے نہیں بڑہ سکتے۔
صاحبزادہ میاں جلیل احمد کو یہ باتیں ناگوارگزرتیں وہ اسلام اور مغربی معاشیات کے تقابل اور تناظر سے جائزہ لینا چاہتےتھے۔ لہذا انہوں نے میٹرک پاس کرنے سے قبل ہی معاشیات پڑھنے کا فیصلہ کر لیا اور پختہ ارادہ بھی کہ اسلامی معاشیات سپیشیلائزیشن کریں گے۔ تاکہ یہ بات دنیا پر واضح کر سکیں کہ انسان کو جو نظام معیشت خالق کائنات کی طرف سے ملا ہے وہی افضل و اعلٰی ہے اور برحق بھی اور ہر زمانہ میں قابل عمل ہے۔
صاحبزادہ میاں جلیل احمد ۶ مارچ ۱۹۶۲ بمطابق ۲۹ رمضان ۱۳۸۳ھ بروز منگل حضرت میان جمیل احمد شرقپوری کے ہاں پیدا ہوئے۔ اور گلستان شیر ربانی میں پھول بن کر مسکرائے۔ فخر المشائخ حضرت میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری کے گھر میں اس تیسرے فرزند نے خوشیاں بکھیر دیں۔ آپ کا نام جلیل احمد رکھا گیا۔
آپ کا بچپن کا زمانہ نہایت اجلا اور ستھرا رہا۔ آپ گلی کے بچوں کے ساتھ بالکل نہیں کھیلے اور نہ ہی بچوں کی ناشائستہ باتوں سے آپ کی زبان آشنا ہوئی۔ آپ نے سکول اور قرآن مجید کی تعلیم ایک ساتھ شروع کی۔ میاں صاحب والی مسجد میں حضرت قاری غلام محمد صاحب سے قرآن مجید ناضرہ پڑھا۔ مقامی گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول سے ۱۹۸۱ میں میٹرک کا امتحان سائنس مضامین کے ساتھ پاس کر لیا۔ پھر گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں داخل ہوئے اور ۱۹۸۳ میں ایف اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ ۱۹۸۶ میں گریجویٹ ہوئے۔ اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس کے لیے داخل ہوئے اور اللہ تعالٰی کے فضل وکرم سے ۱۹۸۸ میں یہ امتحان بھی پاس کر لیا۔