مجدد وقت اپنے پیغمبر کا عملی نمونہ اور اسوۂ رسولﷺکا عکس جمیل ہوتا ہے اور کمال اتباع سے متصف ہو کر مخلوق خدا کے لیے رشدو ہدایت کا باعث بنتا ہے۔ اپنے عزم واستقلال اور عزیمت واستقامت کی بدولت تجوید دین کرتا ہے۔اپنے فکر صحیح کی روشنی میں ایک بیباک مبصّر اور مجسمہ ایثار فلاح فوراً کے انعامات اسی کے ذریعے امت کو حاصل ہوتے ہیں۔امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ اس نے کسی دور میں بھی اپنے نیک بندوں سے دنیا کو خالی نہیں ہونے دیا۔ تجدید دعوت حق کے لیے ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی روشن ضمیر انسان نامور ہوتا رہا جس کے فیض وبرکت اور روحانی تعلیم سے مخلوق خدا فیض یاب ہوتی رہی۔
اس لحاظ سے دسویں صدی ہجری کا فتنہ پرور دور‘برصغیر پاک وہند میں دینی اور فکری حیثیت سے بڑا اہم ہے۔مغل اعظم شہنشاہ اکبرسریرآرائے سلطنت تھا۔بادشاہ کو کمرہ اور کم اندیش حواریوں نے ایسی غلط روش پر ڈال دیاتھا جس کی وجہ سے برصغیر میں اسلامی شعائراور شریعت محمدیہ لادینی کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔کتاب وسنت سے لاپرواہی بڑتی جاتی۔اسلام کے برعکس۵۱مختلف مذاہب کے چنداصول مرتب کر کے ایک معجون مرکب کا نام دین الٰہی قرار دے دیا گیاتھا۔ہر طرف ہدعات ومنکرات اور الحادولادینیت کا دور دورہ تھا۔سورج کی پرستش‘آگ پانی گائے اور کا احترام لازم قرار دے دیا گیاتھا۔پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا‘جینو پہنے جاتے‘آتشکدہ میں اگنی دیوتا کی پوجا ہوتی ۔اس نئے دین نے اکبر کو امام وقت بنا دیا تھا۔ظّل سبحانی کو سر دربار سجدہ کیا جاتاجس کا نام زمین بوسی قرار پایا تھا۔علّت و حرمت کی تمیزاٹھا دی گئی تھی۔مبارک ناگوری کے دونوں بیٹوں کی تمام ذہانت وفطانت بادشاہ وقت کی حمایت اور مبینہ دین الٰہی کی نشرواشاعت میں صرف ہو رہی تھی۔حکومت کے تمام مناصب فرقہ امامیہ اور روافض کے زیرتصرف تھے۔علمائے سو حکومت کی تائیدمیں پیش پیش تھے اور جھوٹے مشائخ طریقت کے لایعنی مسائل کی تشریح میں مجاد لے اور مناظرے کر رہے تھے۔
اس تیروتار دور میں اصلاح احوال کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور برگزیدہ بندے کو منتخب فرمایا۔یہ بزرگ فاروق اعظم کے عظیم سپوت تھے جس کا ظاہروباطن پاکیزہ تھاجو اپنے وقت کا متبحرعالم اور حق پرست شیخ طریقت تھایہ مجاہداعظم امام ربانی مجددالف ثانی کے لقب سے ملقب ہوا۔اس کے خامہ حقیقت نگار نے چمنستان توحیدو رسالت کو ازسر نو بہارجاوداں بخشی اس نے دین محمدی کے خزاں رسیدہ شجر کو اپنے خون جگر سے سینچا۔اس نے دین الٰہی کی بدعات ومنکرات اور روافض کے عقائد فاسدہ کی نہ صرف بھر پور تردید کی بلکہ ان پر شدید ضربیں لگایں جہاں علمائے سُوء کو بڑے’’موثر انداز میں توحیدورسالت کے صحیح مسلک کی تلقین کی ۔وہاں جادۂ حق سے منحرف لوگوں کو شریعت اسلامیہ کے اسرارو رموز سے آگاہ کیا۔سائکان راہ حقیقت اورصوفیا کوصحیح تصوف کی نشاندہی کی۔مصلحت اندیش اور منصب وجاہ کے طالب علمائے سو اور ابو الفضل فیضی جیسے درباری ادیب وشاعر کو اپنی صحیح فکراور فصاحت وبلاغت سے لاجواب بلکہ مفلوج کر دیا۔اس عظیم جہاد میں حضرت مجدّدکی ذات بابرکات کو کبھی تو اسوۂ یوسفی پر عمل کر کے گوالیار کے قلعہ میں قیدو بند میں صعوبتیں جھلنی پڑیں اور کبھی بادشاہ وقت کے دربار میں علمائے سو سے بحث ومناظرہ کرنا پڑا۔
حضرت امام سر ہند میں شوال ۹۷۱ہجری جمعہ کی شب شیخ عبدالاحدکے ہاں تولدہوئے اور نام نامی احمد تجویزہوا۔شیخ احمد سرہندی نے ابتدائی تعلیم اپنے والدمحترم سے حاصل کی۔قرآن پاک حفظ کیااور سترہ برس کی عمر میں تمام علوم متداولہ اور عربی وفارسی عبورحاصل کرلیا۔کچھ وقت درس وتدریس میں گزاراپھرآگرہ تشریف لے گئے اور سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ حضرت شاہ سکندرکیتھلی سے فیض حاصل کیا۔ان کے علاوہ دیگر بزرگوں سے بھی منسلک رہے۔ذہانت خدادادااورقابلیت کا یہ علم تھاکہ بیس برس کی عمر میں تمام علوم ظاہروباطنی میں جامع کمالات ہو گئے۔منوّسط قد‘گندمی رنگ‘گھنی ریش‘بڑی آنکھیں‘چہرے پر ملاحت کے آثار‘خوبصورت نقوش اور باوقار شخصیت کے حامل تھے۔شیخ خلیل اللّٰہ بدخشی اور کئی دوسرے بزرگ ورودہ مسعودمتعلق پیش گوئیاں کرتے رہے۔حضرت غوث الثقلین نے ایک مرتبہ مراکبہ کے بعدفرمایا کہ عالم واقع میں ایک ایسا نور مشاہدہ میں آیاہے جس کا ظہور کم وبیس پانچ صد برس بعد ہو گااور وہ دین محمدی کی تجوید کرے گا۔والدمکرم کے انتقال کے بعد۱۰۰۸ہجری میں حضرت مجددحج بیت اللّٰہ کے ارادہ سے دہلی پہنچے تو وہاں سرتاج اولیاء حضرت خواجہ باقی باللّٰہ‘جوبرصغیرمیں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے سرتاج ہیں‘سے ملاقات ہوئی۔حضرت خواجہ علوم ولایت کے چشمہ صافی اور رموزواسرار شریعت محمدیہ کے افتاب تھے۔ان کو دیکھتے ہی حضرت مجددنے ارادہ سفر ترک کر دیااور خواجہ صاحب کے اخلاق وکردار سے متاثر ہو کر ان کا دامن تھام لیا۔بیعت کی اور بقائے حق کا درس لینا شروع کر دیا۔چند دنوں میں وہ کمال حاصل کیاکہ حضرت خواجہ نے حضرت مجدد کو خلعت خلافت عطاکیااور فرمایاحضرت مجدّدایک درخشندہ آفتاب کی مانند ہیں اور ہم سب ان ستاروں کی طرح ہیں جن کی تب وتاب آفتاب کی روشنی میں مانند پڑ جاتی ہے۔