پروفیسر(ر)محمداقبال مجددی صاحب نے’’ حوزہ نقشبندیہ ‘‘کے قیام کاواقعہ کچھ یوں بیان کیاہے کہ ایک نہایت خوشگوار صبح میاں صاحب مسکین کے غریب خانہ (سبزہ زار، لاہور) تشریف لائے۔ یوں توآپ سینکڑوں مرتبہ ان کے گھریہاں تشریف لائے ۔لیکن آج طبع مبارک کچھ زیادہ ہی مسرورتھی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے عرض کیاکہ سلسلہ نقشبندیہ کی علمی تحقیقات کے لیے ایسے ٹھوس اقدام اٹھائیے جودنیاکی رہنمائی کاسبب بنیں۔آپ نے فرمایا:بتاکیاکریں؟مجددی صاحب نے آپ سے عرض کیاکہ آپ ایک ایسے ادارے کی بنیاد رکھیں جوخالصتاًعلمی تحقیق کرائے اوریہ سب کچھ کتابی صورت میں شائع ہوتارہے۔ آپ نے جواب دیاکہ ہماری طرف سے توکتابیں کچھ نہ کچھ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ مجددی صاحب عرض پردازہوئے کہ حضرت صاحب وہ توٹھیک ہے۔ آپ کی یہ کتابیں تبلیغی نوعیت کی ہیں جن کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔میرامطلب یہ ہے کہ سلسلہ نقشبندیہ کے اصل (عربی، فارسی ، ترکی)مآخذتحقیق وحواشی کے ساتھ جدیدتقاضوں کے مطابق شائع کیے جائیں۔آپ نے فرمایا:پھرتم ہی تجویزکروہم کیاکریں؟اقبال مجددی صاحب نے جواب دیاکہ پاکستان وبیرون پاکستان سے اس سلسلہ پرتحقیقی کام کے لیے افرادی قوت جمع کی جائے۔ انہیں اپنے ساتھ ملاکر یہ اہم فریضہ انجام دیاجائے۔ مجددی صاحب نے حیدرآباد دکن میں قائم ہونے والی ایک انجمن (لجنتہ لاحیاء معارف النعمانیہ) کاذکرکیا جوفقہ حنفی کے علمی احیاء کے لیے وجودمیںآئی تھی اوراس کے ساری دنیاکے مستشرقین سے روابط تھے۔ انہوں نے فقہ حنفی کے بہت سے ایسے نادرالوجود خطی نسخے مرتب کرکے شائع کیے کہ اس سے فقہ حنفی کونہ صرف تقویتِ علمی ملی بلکہ کئی مسلک کے علماء نے ان کی کتابیں پڑھ کر کہاکہ ہم فقہ حنفی کو محض قیاس وآراء کامجموعہ سمجھتے تھے لیکن یہ توسارا حدیث پاک سے مستنبط نکلا۔ اس لجنۃ کے بانی مشہورعالم دین مولاناابوالوفاافغانی مرحوم تھے جنہوں نے چندجیدعلماء کی ایک مختصر سی جماعت کے ساتھ اس کارخیر کاآغازکیااورفقہ حنفی کی بیسیوں نادرالوجودکتابوں کو ایڈٹ کرکے شائع کیا۔ نہ کوئی وسائل تھے نہ ان کی اشاعت کاکوئی بندوبست۔ بس اللہ کریم کانام لے کربیٹھ گئے اورکام کاآغازکردیا۔ ان کے شائع کردہ ایڈیشن آج مصر اوربیروت میں عکسی صورت میں طبع ہوکر عام ہوچکے ہیں۔
حضرت صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:تم اس کالائحہ عمل مرتب کروکہ کن اصحاب کواس ادارہ کاممبربنایاجائے اوریہ کیسے کام کاآغاز کرے۔ مجددی صاحب نے آپ کے حکم کے مطابق مندرجہ ذیل خاکہ مرتب کیا۔
1۔نقشبندی سلسلہ کی تاریخ وتعلیمات سے متعلق درجہ اول کے تمام مآخذومراجع جمع کیے جائیں۔
2۔صاحبزادہ میاں جمیل احمدشرقپوری کے ذخیرۂ کتب مخزونہ کتب خانہ پنجاب یونیورسٹی لاہورکوسلسلۂ نقشبندیہ کی کتب کے لیے مخصوص ذخیرہ بنادیاجائے۔
3۔ اس امرکے لیے ساری دنیاکے علمی مراکزسے رابطہ کیاجائے اوران سے ذخیرہ کے لیے کتابیں بھیجنے کے لیے درخواست کی جائے۔
4۔مطبوعہ کتب جودنیامیں طبع ہوئی ہیں(سلسلۂ نقشبندیہ سے متعلق)خرید کر جمع کی جائیں۔
5۔ غیرمطبوعہ کتب یعنی مخطوطات دنیامیں جہاں جہاں اس سلسلہ سے متعلق محفوظ ہیں ان کے عکس کتب خانے کے لیے منگوائے جائیں۔
6۔ اس کارخیرکے لیے باقاعدہ علماء ومحققین کاایک بورڈتشکیل دیاجائے جوان مراجع کی فہارس تیارکرنے پران کے عکس لینے کی کوشش کرے۔
7َ ۔ پاکستان اوردنیابھرمیں نقشبندی سلسلہ کے مراکز اورخانقاہوں سے علمی رابطہ قائم کیاجائے اوران مقامات میں اگر کتب خانے موجودہوں تووہاں نادر کتب ومخطوطات کے عکس بنوئے جائیں۔
8۔سلسلۂ نقشبندی کے مخطوطات خریدنے کے لیے پنجاب یونیورسٹی لائبریری (ذخیرۂ میاں صاحب )کوخطیر رقم دی جائے جومیاں صاحب کے نام سے بنک میں جمع رہے اورمخطوطات خریدتے وقت بنک سے اداکی جائے۔
9۔روس سے آزاد ہونے والے مسلم علاقوں خصوصاًبخارا، سمرقند، تاشقنداورقزان وغیرہ میں جاکر وہاں سے نقشبندی سلسلہ کی قدیم مطبوعات اورمخطوطات حاصل کیے جائیں کیونکہ یہ علاقے اس سلسلہ کے اولین مراکزتھے۔