فخرالمشائخ الحاج میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ جامع علم وعمل اورصاحب کمال روحانی پیشوا تھے۔ آپ کی شخصیت میں ایک مقناطیسی قوت تھی جو طالبان حق کومقناطیس کی مانند اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ سنتِ مطہرہ کی پابندی ، حلیمی، سادگی، فیوض وبرکات کی فراوانی، مہمان نوازی، خندہ پیشانی، تبلیغ دین کے لیے کتب کی تصنیف، کتب خریدکر مفت تقسیم ، مساجدکی تعمیر، اہل علم کی حوصلہ افزائی، کتب لکھنے کی ترکیب، ماہنامہ نوراسلام کے ذریعے اسلام کی تبلیغ بالخصوص مختلف نمبروں کے ذریعے مشاہیراسلام اوراولیاء اللہ کی تعلیمات کوعام کرنا، غرضیکہ آپ کی کن کن خوبیوں کاذکرکیاجائے۔ آپ جامع کمالات اورخیروخوبی میں بے مثال تھے۔آپ علم کی اہمیت سے باخوبی واقف تھے ۔ اس لیے آپ رحمۃاللہ علیہ نے تحریری میدان میں وہ کام کردکھایاجس کی نظیرنہیں ملتی۔یہی وجہ ہے کہ آپ پر تحقیق ہورہی ہے اور کتب لکھی جارہی ہیں۔
فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی ذات پر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد اوردیگرکالجوں میں ایم فل اورپی ایچ ڈی کے طالب علم مقالا ت لکھ رہے ہیں۔جی سی یونیورسٹی فیصل آبادکی ایک طالبہ ثوبیہ عارف رولنمبر5812، سیشن2014 ۔ 2016ء نے اپناایم فل کامقالہ بعوان ماہنامہ ’’نوراسلام ‘‘ میں مباحث تصوف (مطالعہ وجائزہ)لکھا۔اس کومکمل کرنے کے بعداگست 2016ء میں جمع کروایااور ایم فل کاامتحان پاس کرلیا اوریہ وہ خو ش قسمت پہلی طالبہ ہے جس نے حضور فخرالمشائخ علیہ الرحمۃکے تحریری کام پراپنامقالہ لکھااوراللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کامیابی سے ہمکنارہوئیں۔ ایک اورطالب علم مقصود احمد رندھاوا (فون03007646124) جوکہ ڈویژنل پبلک سکول وکالج فیصل آبادمیں بطور اسسٹنٹ پروفیسراپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہاہے، آستانہ عالیہ شرقپورشریف پرایم فل کامقالہ بعوان ’’آستانہ عالیہ شرقپورشریف کی علمی خدمات ‘‘پرکام کررہاہے۔تحقیق کرنے والوں کے لیے مطلوبہ موادپنجاب یونیورسٹی میں موجود’’میاں جمیل احمدشرقپوری کاذخیر�ۂکتب ‘‘جوکہ حضرت صاحب رحمۃاللہ علیہ نے اپنی حیات مبارکہ میں پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کو بطورتحفہ دیاتھا، موجودہے۔ آپ کے وصال فرماجانے کے بعد سب سے پہلاتحریری مجموعہ ’’ماہنامہ نوائے شرقپورشریف‘‘کی شکل میںآپ کے چہلم پرشائع کرنے کی سعادت صاحبزادہ میاں جلیل احمد صاحب شرقپوری نقشبندی مجددی نے حاصل کی اوریہ پہلا ایڈیشن اتنا مقبول ہواکہ ہاتھوں ہاتھ تقسیم ہوگیااوربہت سے خواہش مندحضرت اس کو حاصل کرنے سے محروم رہ گئے۔اس لیے اس کی اشاعت مکررکی گئی۔ اس کے بعد آپ سے محبت کرنے والوں نے اپنی اپنی عقیدت ومحبت کے اظہار کے لیے اپنے سینوں میں محفوظ یادداشتوں کواستفادہ عام کے لیے شائع کیا۔آپ کی دنیافانی سے بقائے حیات کی وادی میں اترنے کے فوراً بعدمندرجہ ذیل کتب منظرعام پرآئیں:
1۔ مختصرتذکرہ فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ
علیہ ازصاحبزادہ میاں جلیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی(اکتوبر۔2013)
2۔ حالات زندگی فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ ازڈاکٹرنذیراحمدشرقپوری نقشبندی مجددی(اکتوبر2013)
3۔ فیضان فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ
ازڈاکٹرنذیراحمدشرقپوری نقشبندی مجددی(دسمبر۔2013)
4۔ تصرفات، کشف وکرامات فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ازڈاکٹرنذیراحمدشرقپوری نقشبندی مجددی(اکتوبر۔2014)
5۔ فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی دینی صحافت (ماہنامہ نوراسلام شرقپورشریف کے اداریے) ازڈاکٹرنذیراحمدشرقپوری نقشبندی مجددی(اکتوبر۔2016)
6۔ فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ بانی تحریک یوم مجددالف ثانی رحمۃاللہ علیہ ازڈاکٹرنذیراحمدشرقپوری نقشبندی مجددی(اکتوبر۔2016)
7۔ فخرالمشائخ صاحبزادہ میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ
(یادداشتوں کے آئینے میں)ازسید جمیل احمدرضوی(2014)
8۔ اہلِ علم وقلم کے خطوط بنام حضرت الحاج میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی
رحمۃاللہ علیہ ازمحمدمعروف احمدشرقپوری(2015)
9۔ یادداشتیں اگست 1991ء سے ستمبر 2013ء تک فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل
احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ گزارے ہوئے قیمتی لمحات
ازمحمدمعروف احمدشرقپوری(دسمبر۔2016)
10۔ ماہنامہ نوراسلام شرقپورشریف کافخرالمشائخ نمبر2015ء(دوجلدیں)شائع ہوا۔اس کا ٹائٹل نہایت خوبصورت، عمدہ کاغذ، جاذب نظرہے۔ ہاتھ میںآتے ہی دل باغ باغ ہوجاتاہے۔ آپ پریہ نہایت عمدہ نمبرہے۔ اس کولوگ صدیوں یادرکھیں گے۔اس کے مضامین کی تعداد58ہے۔ اس کوصاحبزادہ میاں
ولیداحمدجوادشرقپوری صاحب نے شائع کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
ایک مقولہ ہے کہ جس نے کسی صاحب ایمان کی سیرت وتاریخ مرتب کی۔ گویا اس نے اس شخصیت کوزندہ رکھا۔
کسی دانشورکاقول ہے:’’شخصیت انسان کے لیے وہی کچھ ہے جوخوشبوپھول کے لیے ہے‘‘۔ایک اورقول ہے!
انسان مرجاتے ہیں مگرکتابیں نہیں مرتیں۔ کتاب ایک دستاویز ہے جوساتھ دیتی ہے۔ پھر
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
پھربے شک اولیاء اللہ مرتے نہیں بلکہ ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں۔
ان کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقام صوت و صدا سے گزر گیا
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می تالد حیات
تا ز بزم عشق ، یک دانائے راز آید بیرون
سو بار بند عشق سے ہم آزاد ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
بس ہجوم ناامیدی ، خاک میں مل جائے گی
یہ جو اِک لذت ، ہماری سعی بے حاصل میں ہے