شیرربانی فری ڈسپنسری اورفری سفری شفاخانہ ) شرقپورشریف)
جس طرح آپ کی طبیعت میں خدمتِ دین کاجذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ جس کے لیے آپ نے بے شمار مساجد تعمیرکروائیں۔ حضرت میاں نصیرالدین رحمۃ اللہ علیہ کامزارمبارک تعمیرکروایا ۔ درس گاہ دارالمبلغین قیام فرمایا۔ ماہنامہ نوراسلام کااجراء کیا۔ جامعہ شیرربانی برائے طالبات کاقیام فرمایا۔ ایک دفعہ دریائے راوی میں سیلاب آگیااورآپ کو کسی ضروری کام کی وجہ سے لاہورجاناپڑا۔ آپ نے دیکھا کہ ہرطرف پانی ہی پانی تھا۔ لہٰذاآپ ایک ٹریکٹرپربیٹھ کر لاہورکی طرف گئے۔ آپ نے پورے راستے میں کیمپ لگے ہوئے دیکھے جن پربینر لگے ہوئے تھے۔ جن پرلکھا تھا ’’فری میڈیکل کیمپ برائے سیلاب زدگان‘‘ان کیمپس کودیکھ کرآپ کوخیال آیا کہ مجھے بھی میڈیکل کیمپ لگاناچاہیے توآپ نے حکیم علی احمدنیّر واسطی سے رابطہ کیاکہ میں نے شرقپورشریف میں فری میڈیکل کیمپ لگانے کاارادہ کیاہے۔ جس پرحکیم صاحب نے جواب دیاکہ وہ خدمات کے لیے حاضرہے۔ انہوں نے کہاکہ وہ خود بھی وقت دیں گے اورطبیہ کالج سے چوتھے سال کے کچھ طالب علموں کی ڈیوٹی لگادیتے ہیں۔ اس طرح آپ نے سیلاب زدگان کے لیے فری میڈیکل کیمپ قائم کیا۔جس میں اتنے مریض آئے کہ سوچابھی نہ تھاکہ کیمپ اس قدرکامیاب ہوگا۔ پھرآپ نے ارادہ کیاکہ ایک فری ڈسپنسری کااہتمام کیاجائے۔ آپ نے 2001ء میں شیرربانی فری ڈسپنسری بیاد ثانی لاثانی رحمۃاللہ علیہ شرقپوری کے قیام کاارادہ فرمایا۔ جس کے لیے آپ نے میڈیکل کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات جن کاتعلق آستانہ عالیہ شیرربانی رحمۃاللہ علیہ سے تھا۔ ان سے رابطہ کیااورایک اجلاس بلایاجس میں ڈاکٹرفقیرحسین صاحب، ڈاکٹرمحمدیوسف صاحب گگومنڈی والے، ڈاکٹرسمیع اللہ شیخ صاحب میڈیکل سپریٹنڈنٹ ، شیخ محمدارشدصاحب پشاوروالے اورڈاکٹرمحمدخالد صاحب موہلنوال والے حاضر ہوئے ۔ آپ نے فرمایا:میں نے ڈسپنسری بنادی ہے۔ اب اسے چلاناآپ لوگوں نے ہے اورجذباتی طورپرہاں نہیں کرنی بلکہ اپنی ذات کومدنظررکھتے ہوئے وقت دیناہے کہ آپ کے اپنے معاملات میں بھی کسی قسم کاخلل نہ آئے۔ جس پرفیصلہ ہواکہ ڈسپنسری ہفتہ میں دودن کھلے گی۔ جمعہ المبارک اوراتوارکے روز۔اس کے بعدکھاناکھلایاگیااورپھر ڈسپنسری کاافتتاح کردیاگیا۔ آپ نے فرمایاکہ اگرقادے ڈاکوسے لوگوں کوشفاہوسکتی ہے تواس ڈسپنسری سے بھی ضرورلوگوں کوشفاملے گی اوراس کے بعد دعافرمائی۔ اس کے بعدحسبِ معمول ڈسپنسری کھلناشروع ہوگئی اورایکسرے ۔ ای ۔ سی ۔جی۔ خون تیسٹ کااہتمام بھی کیاگیا۔ لوگوں کابڑارش ہونے لگا۔
آپ کے صاحبزادے میاں جلیل احمدصاحب شرقپوری نے اپنی ذاتی گرہ سے ایک عدد ایمبولینس خریدکر عطیہ کردی اس طرح ایک ایمبولینس سفری شفاخانہ کے لیے تیارہوگئی۔ جس سے شرقپورکے گردونواح کے گاؤں میں جاکر فری میڈیکل کیمپ لگائے جاتے۔ صاحبزادہ میاں جلیل احمدصاحب شرقپوری نے 2004ء میں ایک نئی ایمبولینس خریدی جس میں ایسے مریضوں کو لاہورمنتقل کیاجاتاجن کے لیے داخل ہونا ضروری تھا۔ الٹراساؤنڈمشین کااہتمام کیاگیا۔ ڈاکٹرمحمدیوسف صاحب نے ایک دفعہ سب ڈاکٹروں سے مشورہ کیاکہ آپ سے عرض کرتے ہیں کہ جس طرح سرکاری ہسپتالوں میں پرچی کی فیس 10روپے فیس ہے ۔ ہمیں بھی رکھنی چاہیے۔ جس پر سب ڈاکٹروں نے ان کی ہاں میں ہاں ملادی کیوں کہ ایک وہ عمرمیں سب ڈاکٹروں سے بڑے تھے۔ دوسراخالص عقیدت والے بندے تھے۔ آپ نے فرمایاپرچی فیس نہیں رکھنی۔ باقی والوں نے اگر پرچی فیس رکھی ہے اورہم بھی رکھ دیں تویہ کام مثالی نہیں ہوگا۔ آپ نے فرمایااتنابڑاکام تومیں نے یہ سوچ کرشروع کیاثانی صاحب رحمۃاللہ علیہ فرماگئے تھے۔ (میاں توجہڑے کم نوں ہتھ پاویں گا ضرور توڑچڑھے گا) یعنی کامیابی ضرورہوگی اورآپ اکثریہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
سوہنیاں اُچیاں شاناں والا میرا سوہنا پیر لاثانی
قطب وقت بنایا جس نو حضرت شیر ربانی