حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولوی غلام رسول صاحب رحمۃاللہ علیہ > صفحہ 1

 

حضرت مولوی غلام رسُول رحمۃ اللہ علیہ ایک نہایت ہی بزرگ اور فقیر طبیعت حافظ،عالم و عابد شخص تھے۔ آپ کے انتہاسے زیادہ بڑھے ہوئے زہدوعبادت کاچرچا گھر گھر پھیلا ہواتھا اورضمیری و روحانی جوہروں اور ریاضت ومجاہدات کے کرشموں کے ڈنکے ایک عالم میں بج گئے تھے۔ شہر قصور میںآپ کا مکان کوٹ حاجی رانجھے خاں متصل مسجد حاجی رانجھے خاں تھا۔ شہر قصور کواُس وقت جو عروج اور ترقی حاصل تھی وہ شایدآج بھی اُسے نصیب نہ ہو۔ یہاں کے باشندے نہایت خوشحال اور دولت مند تھے۔ ہر قِسم کے باکمال اور اہلِ ہنرکا وجود پایا جاتا تھا۔ شہر تجارت اور فلاحت کابھی مرکز تھا لیکن بدقسمتی سے نواب نظام الدین خاں حاکمِ قصور سے 1803 ؁ء میں رنجیت سنگھ(1780۔1839) کا بگاڑہوگیا۔ رنجیت سنگھ نے شہر قصورپر یورش کردی اور شہر قصورکو ویران کردیا۔ اس کے دو تین سال بعد 1806 ؁ء میں نواب قطب الدین خاں حاکم قصور کے عہد میں رنجیت سنگھ نے دوبارہ فوج کشی کی۔ رنجیت سنگھ کا ارادہ درحقیقت ریاست کو چھیننے کا تھا۔ اگرچہ پٹھانوں نے یکدل و جان ہوکر اپنی قیام گاہ ،عزت و آبرو کے واسطے اس بار سخت جنگ کی لیکن دو ماہ کے محاصرہ کے بعد جس قدر غلہ شہر میں تھا لشکر اور رعیت نے کھالیااور لوگوں نے مویشی اور سواری کے گھوڑے مار کھائے۔جب شہر کی خلقت تنگ آئی تو جس طرح ہوسکا ۔ لوگ شہر سے نکل کر بھاگ گئے۔ حضرت میاں غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ بھی انہی ایام میں تن تنہا نکل کر حجرہ شاہ محمد مقیم چلے گئے۔ حجرہ شاہ محمد مقیم جس وقت پہنچے تووہاں مسجد میں دو صاحبزادے تختیوں پر لکھنے کی مشق کررہے تھے۔ حضرت میا ں غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے خوشنویس اور نامی گرامی کاتب تھے۔ انہوں نے صاحبزادوں سے تختی لے کر دو حروف اپنے قلم سے ڈال دیے۔ صاحبزادوں نے وہ حروف اپنے والد حضرت قطب علی رحمۃاللہ علیہ سجادہ نشین درگاہ حجرہ شاہ محمد مقیم کو جاکردکھائے۔ چنانچہ اس طرح حضرت قطب علی رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین کو حضرت میاں غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری کا علم ہوگیا۔اُنہوں نے حضرت میاں غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی عزت وتکریم کی۔
رنجیت سنگھ نے قصور کے بعداطراف و جوانب کے علاقوں کو بھی غارت کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ صاحب سنگھ بیدی جو گرو نانک کی اولاد سے تھا ،نے حجرہ شاہ محمد مقیم پریورش کردی ۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہاں سے نکلے اور شرقپور آ کر پناہ لی۔ مولوی غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حجرہ شاہ محمد مقیم سے شرقپور کے زرگروں کے بزرگ پیر بخش، نادر بخش،خدا بخش وغیرہ بھی شرقپور آ گئے۔ یہاں کے لوگوں نے آپ سے اس قدر ہمدردی و غمخواری کی کہ آپ یہیں مقیم ہوگئے۔ جس جگہ اب مسجد میاں صاحب واقع ہے ۔ اس جگہ اس زمانے میں شہر کا کوڑا کرکٹ ہوتا تھا۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس جگہ کو شرقپورکے زمینداروں کی مدد سے پاک صاف کرکے مسجد کی بنا رکھ دی اور اس جگہ کو اپنے درس و تدریس اور افتا ء کا مرکز بنالیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دامن میں حق و صداقت کا جوہررکھتے ہیں۔ وہ جس سرزمین پر جانکلتے ہیں، وہیں اپنی فصل خود تیارکرلیتے ہیں۔حضرت مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں اولادِنرینہ نہ تھی۔ صرف ایک ہی صاحبزادی تھی۔ جن کا نام بی بی آمنہ تھا۔حضرت مولوی غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح حضرت میاں محمد حسین قصوری رحمۃ اللہ علیہ سے کردیا۔ حضرت میاں محمد حسین قصوری رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب دو تین واسطوں سے حضرت میاں غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جاملتا ہے۔ بوجہ نہ ہونے اولادِ نرینہ کے حضرت میاں غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت میاں محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کو یہیں شرقپور منگوالیا۔ 
شرقپور کے بڑے بڑے آدمی مثلاًملک محمدالیاس رحمۃ اللہ علیہ، حکیم شیر علی،حافظ احمد یار وغیرہ سب حضرت میاں غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ شاگرد ی میںآگئے۔ آپ کی برکت سے شرقپورکے گھرگھر علم وہدایت کاچرچا ہوگیا۔ آخر بروز سہ شنبہ24 رجب 1280 ؁ھ 5جنوری1864 ؁ء بمطابق23پوہ 1920 ؁بکرمی آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کی تاریخ وفات لفظ غَفَرَ سے 1280ء نکلتی ہے ۔ آپ کے بعدآپ کی جگہ حافظ محمد حسین صاحب رحمۃاللہ علیہ خلقِ خدا کی خدمت کرتے رہے۔ حافظ محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قصور میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے ۔ حافظ محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تین بیٹے تھے۔ سب سے چھوٹے میاں نظام الدین تو لاولدہی فوت ہوگئے تھے اور سب سے بڑے بیٹے حضرت میاں عزیزالدین رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ کے والد تھے۔ بڑے متقی اورپرہیزگار تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند ،خوفِ خدا، شب بیدار تھے۔ غرض کہ موصوف ہمہ صفت تھے۔ محکمہ صحت میں بطورویکسی نیٹرملازمت اختیار کرلی۔ مدتِ دراز تک ملازم رہے۔ آخر دورانِ ملازمت بمقام قصبہ بھوانی ضلع حصار میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔ حضرت میاں عزیزالدین رحمۃ اللہ علیہ اپنے نوکروں کو ساتھ بٹھاکرکھانا کھلاتے تھے۔ اپنے ہاتھ سے اپنے کپڑے بھی دھوتے تھے اور اپنے نوکروں کو بھی دھوکردیتے تھے۔ رشوت کی ایک کوڑی تک کسی سے ساری عمر نہیں لی۔ حضرت میاں عزیز الدین رحمۃ اللہ علیہ کے منجھلے بھائی حضرت میاں حمیدالدین رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ عالم اور قرآن کے حافظ تھے۔ حضرت میاں محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ کے بعد مسجد کا انتظام آپ ہی کے سپرد رہا۔ آپ بہت سے کمالات اور خوبیوں کے جامع تھے۔9 جمادی الثانی 1333 ؁ھ بمطابق 24 اپریل 1915 ؁ء بروز ہفتہ وفات پائی۔