کشف وروحانیت ، شریعت وولایت کے حوالے سے آستانہ عالیہ شرقپور شریف کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ نہ صرف برصغیر پاک وہندبلکہ دنیا کے کونے کونے میں بھٹکی ہوئی انسانیت آج بھی اس آستانے کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوکر شریعت کواپنالبادہ اور انسانیت کی خدمت کواپنامشن بنائے ہوئے ہے۔آستانہ عالیہ شرقپور شریف کے بانی حضرت میاں شیرمحمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ ہیں۔
حضرت میاں شیرمحمدشرقپوری رحمۃ اللہ علیہ 1863 ء بمطابق 1280 ھ میں بمقام شرقپورشریف پیداہوئے۔آپ مادرزاد ولی تھے۔آپ کے والدکانام میاں عزیزالدین علیہ الرحمۃ تھا۔ میاں عزیزالدین کے والدکانام حافظ محمدحسین علیہ الرحمۃ تھاجو کہ ساری زندگی خلقِ خداکی خدمت کرتے رہے۔آپ کی والدہ ماجدہ کانام مائی عائشہ تھا جو میاں بدرالدین صاحب رحمۃاللہ علیہ قصوری کی صاحبزادی تھیں۔
میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بچپن عام بچوں کی طرح نہ تھابلکہ آپ بچپن ہی سے بڑے متقی اوربڑے پرہیزگارتھے۔ اس وجہ سے صرف آپ کے والدحضرت میاں عزیزالدین رحمۃ اللہ علیہ پرہی نہیں بلکہ آپ کے ناناحضرت میاں غلام رسول صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ سے بیحد محبت کرتے تھے۔
آپ بچپن ہی سے حیاء دار تھے۔ ’’خزینہ معرفت‘‘میں لکھاہے:’’حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ بچپن میں جب محلہ سے گزرتے تو سر پر چادر اوڑھی ہوتی تھی اور محلہ کی عورتیں کہتی تھیں کہ یہ ہمارے محلہ میں ایک لڑکی پیداہوئی ہے جوچہرہ پر نقاب لے کے چلتی ہے‘‘۔علاوہ ازیں بچپن کی عمر میں گھوڑے کی سواری کابہت شوق تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ جس گھوڑی پر سوارہوتے وہی آپ کی مطیع ہوجاتی تھی۔ شرقپور کے لوگ آپ کو گھوڑوں کے ’’وحی‘‘ (ملک الموت) کہا کرتے تھے۔
سب سے پہلے آپ کو قرآن مجید کی تعلیم دی گئی۔ جب آپ نے قرآن مجید پڑھ لیاتوپھر آپ کومڈل سکول شرقپور میں بٹھایا گیامگرآپ کی طبعیت مدرسہ میں بالکل نہیں لگتی تھی۔ بڑی مشکل سے آپ نے پانچویں جماعت تک تعلیم پائی۔ یہ تواوپربیان ہوچکاہے کہ آپ عام بچوں کی طرح نہ تھے۔ جب سکول سے چھٹی ہوتی توآپ سیدھے سکول سے مسجد چلے جاتے اورگوشہ تنہائی میں بیٹھ کر ’’اللّٰہ ‘‘کاذکر کرتے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ’’ذِکْرُاللہِ ضِیَاءٌلِلْقُلُوْبٌ‘‘ یعنی اللہ کا ذکر دلوں کو چمکانے والا ہے۔ مدرسہ کی تعلیم کے بعدفارسی کی چند کتابیںآپ نے اپنے چچا حمیدالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں۔ پھر آپ کی طبیعت خوشنویسی کی طرف مائل ہوگئی۔ آپ کے دِل میں خوشنویسی کا شوق ابتداء ہی سے تھا۔ مدرسہ میں بھی آپ کی عموماً خوشنویسی مشہورتھی۔ آپ نے بہت سے قلمی قرآن مجیدلکھے اوربوسیدہ قرآن مجیدوں کو اپنے قلم سے درست اورمکمل کیا۔ آپ کے قلم سے تحریرشدہ قطعات، کاتبوں اور نقاشوں کوآج بھی محوِحیرت کردیتے ہیں۔ آپ کی بیشتر قلمی یادگاریں چھپوادی گئی ہیں۔
بچپن ہی سے آپ کی پیشانی مبارک سے انوارنمودار تھے۔ آپ کے چہرہ مبارک سے اس قدر جلال نمایاں تھاکہ کوئی بھی شخص آپ کی طرف نظر اٹھاکرنہیں دیکھ سکتا تھا اور اسی کیفیت سے آپ کی آئندہ جاہ وجلال کاپتہ چلتاتھا۔
بچپن ہی میں آپ کی یہ حالت تھی کہ ذراسی آواز پرآپ کووجد ہوجاتا۔جو کئی کئی گھنٹوں تک رہتاتھا۔ ایک دِن آپ مسجد میں تشریف فرماتھے کہ کنوئیں کی چرخی کی آواز آپ کانوں میں پڑگئی۔ بس پھر کیا تھا؟ آپ پروجد طاری ہوگیا۔ جب آپ کی یہ حالت ایک عرب نے دیکھی جوکہ اُس وقت مسجد میں موجود تھا۔ اس حالت کو دیکھ کربولا’’ھٰذَامَجْنُوْنٌ‘‘یہ دیوانہ ہے۔ حالانکہ آپ دیوانہ نہ تھے بلکہ آپ عشقِ حقیقی کی آتش ازلی میں مستغرق تھے۔ آپ کواس کے یہ الفاظ سُن کرجوش آگیا۔ آپ نے عرب پر ایک ایسی نگاہ ڈالی کہ وُہ بے خود ہوگیا۔’’خزینہ معرفت‘‘میں ہے کہ:
’’اس عرب کانام عبدالعزیزتھا اور وُہ آپ کی نظر پڑتے ہی اس قدر لوٹنے لگاکہ اچھل اچھل کرمسجد کی چھت کے قریب چلاجاتاتھا۔ اسی حالت میں مسجد کی چھتّی (پڑچھتی) پرجاپڑا۔ جب ہوش میںآیا توبیعت کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا:تم مدینہ چھوڑکر ہند میں کیوں آئے؟اب تمہاری بیعت یہی ہے کہ’’واپس چلے جاؤ‘‘اس نے بہت اصرارکیامگر آپ نے قبول نہ کیا۔ پھر اس عرب نے کوٹلہ شریف میں جاکر باباصاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بہت زیادہ منت سماجت کی اور انہیں ہمراہ لے کر شرقپورشریف آیا۔ تب باباصاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان سے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بیعت سے مشرف فرمایا‘‘۔