آپ پکے حنفی المذہب تھے۔ اس لیے آپ اپنے تمام دوستوں کوحنفی مذہب کی تبلیغ وتلقین فرمایاکرتے تھے اور یہ فرماتے تھے کہ جس کامَسلک ائمہ اربعہ سے باہر ہے وُہ غلط راستہ پرہے اور حنفی مذہب سب سے عظمت والاہے کیونکہ ہمارے فاروق( رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) فاروقِ اعظم ہے۔ ہمارے امام ،امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور ہمارے غوث، غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ہے اورہم تین اعظموں کے درمیان ہیں لیکن اس کے باوجود آپ مذہبی جھگڑوں میں حصہ نہ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرفرقہ کے لوگ آپ کوبرگزیدہ ،مقبول اورمحسن ملت جانتے اور مانتے ہیں۔
ثانی لاثانی رحمہ اللہ تعالیٰ کومقام ولایت عطافرمانا:
حضرت ثانی صاحب رحمۃاللہ علیہ جمعہ کے خطبہ میں عموماً دیر سے آیاکرتے تھے۔ ایک دِن آپ خلافِ عادت بہت پہلے مسجد میں تشریف لے آئے۔ حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ نے دورانِ خطبہ آپ پرایک نگاہ ڈالی توحضرت ثانی صاحب رحمۃاللہ علیہ جوکہ کافی دُور بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگوں کے سروں پرسے ہوتے ہوئے حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ کے قدموں میںآگِرے۔ کپڑے پھاڑڈالے ۔ عینک ٹوٹ گئی اورآپ کی کلائی پربندھی ہوئی گھڑی ریزہ ریزہ ہوگئی۔ عجیب کیفیت تھی۔ مچھلی کی طرح لَوٹتے تھے اور آپ کے گِرد چکر کاٹتے تھے۔
حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ نے جمعہ پڑھایا اور دوستوں سے فرمایاکہ انہیں اٹھاکر مسجد کی چھت پر چھوڑآؤ۔ جب حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ نمازِعصر کے بعد دوستوں سے فارغ ہوکر اوپر تشریف لائے توثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بِالکل بیخود پڑے تھے۔
حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ نے توجہ فرمائی۔ اس حالت میں ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ فرمارہے تھے :’’تُو تومیرا رَبّ ہے۔تُو تومیرا رَبّ ہے۔ اَب بس کرمجھ میں ہمت نہیں رہی‘‘۔
حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ مسکراتے تھے۔ آپ رَبّ نہ تھے مگر چونکہ لَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ آلخ۔حدیثِ قدسی میں اللہ تبارک وتعالےٰ نے خود ارشاد فرمایاہے کہ جب میرا بندہ نفل پڑھ پڑھ کرمیرامقرب بن جاتاہے تومَیں اس کی آنکھیں بن جاتاہوں کہ جن سے وُہ دیکھتاہے۔ اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وُہ سنتاہے۔ اس کے پاؤں بن جاتاہوں جن سے وُہ چلتاپھرتاہے۔ اس کادیکھنا ربّ کادیکھنا،اس کاسننا حقیقت میں ربّ کا سنناہے۔ بندہ ربّ تونہیں بن جاتامگر عبادت کثیرکی وجہ سے ذاتِ الہیہ کامظہرہوجاتا ہے۔ جب وُہ کلام کرتاہے ۔ زبان تو اُس کی ہوتی ہے لیکن حقیقت میں رب بولتاہے۔ اس نقطہ کو حضرت عارفِ رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے خُوب سمجھاہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
گفتۂِ او گفتۂِ اللہ بود
گرچہ از حلقومِ عبداللہ بود
حضرت قبلہ ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پہلے تو صرف غلام اللہ تھے۔ لیکن حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ نے جب توجہ فرمائی ،توحضرت قبلہِ عالم میاں غلام اللہ ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بن گئے اور تیس سال تک حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین رہ کر 7؍ربیع الاوّل 1377 ہجری میں 67 برس کی عمر پاکر وصال فرمایا اور حضرت رسالتمآب ﷺکے سچے یار حضرت صدیقِ اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی طرح حضرت قبلہِ عالم رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ مبارک کے اندر آپ کے پہلومیں جگہ پاکر اعلیٰ مقام حاصل کیا اور دنیا کوثابت کردیا کہ آپ واقعی حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے صحیح معنوں میں جانشین اورحضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔