؍ربیع الاوّل 1447 ھ بروز منگل جب آپ کاجنازہ اٹھایا گیا تو شرقپور کے دَرو دیوار بھی اس شیرِالٰہی کے فراق میں رونے لگے۔ ان کواس بیچارگی میں دیکھ کر آسمان سے بھی نہ رہا گیا۔چنانچہ آسمان نے بھی اشک باری شروع کردی اور رحمتِ حق اس قدر جوش میں آئی کہ شجروحجر بلکہ کائنات کی ہرشے کی آنکھوں سے اشکوں کاسیلِ رواں نظر آتاتھا۔ آپ کے جنازہ کے ساتھ بہت زیادہ مخلوق تھی۔ یُوں معلوم ہوتاتھاجیسے آسمان سے فرشتے بھی اترآئے ہیں۔ بے پناہ ہجوم کی وجہ سے جنازہ کے ساتھ لمبے لمبے بانس بندھے ہوئے تھے۔ چار بجے دوپہر تک حضرت نُورالحسن شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے آنے کاانتظار رہا کیونکہ حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ نے عالِم حیات میں شاہ صاحب رحمۃاللہ علیہ سے فرمایاتھاکہ تم بروز منگل لاہور آکرسُن لینا۔شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آمدپر حضرت صاحبزادہ سید محمدمظہر قیوم صاحب،سجادہ نشین مکان شریف و خلیفہ مجاز حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نمازِجنازہ پڑھائی اور ساڑھے چھ بجے شام آپ کوقبر شریف میں اتارا گیا۔ علاوہ یاروں اور عوام مسلمانوں کے سینکڑوں کی تعداد میں ہندو اور سکھ وغیرہ بھی شامل تھے۔خدا وندکریم آپ کی قبر انورپر بیشمار رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین!