آپ بڑے سخی تھے۔ آپ کے والد آپ کو جوکچھ خرچ کرنے کے لیے دیتے، اسے آپ غرباء میں تقسیم فرمادیتے تھے۔ آپ کسی بھی سائل کوخالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔ آپ کی سخاوت حد درجہ کوپہنچی ہوئی تھی۔ جس کے سامنے حاتم طائی جیسے شخص بھی کچھ حثییت نہ رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ بعض اوقات سائل کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی سے رقم ادھار لے لیا کرتے۔ آپ کے والد صاحب رحمۃاللہ علیہ آپ کی اس روش کوناپسند فرماتے تھے۔ بلکہ ایک دن اس حالت پرپریشان تھے کہ آپ کے کانوں میں ایک غیبی آواز آپڑی’’گھبراؤنہیں، ایک دن ایسا آنے والاہے جب تمہارایہی بیٹا آفتاب کی طرح چرخ ولایت پردرخشندہ ہوگا‘‘۔
اس آوازکوسن کر آپ کے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہت خوش ہوئے اور آپ کے ساتھ پہلے کی نسبت بہت زیادہ محبت اور پیار کرنے لگے۔
اب آپ کو بیعت کی ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ اللہ تبارک تعالیٰ کا یہ ارشاد وَابْتَغُوْااِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃجانتے تھے۔ اس لیے آپ نے مُرشد کی تلاش شروع کردی۔
چونکہ آپ کے اکثر بزرگ حجرہ شاہ مقیم والوں کے مرید تھے۔ لہٰذا آپ نے بھی وہاں مرید ہونے کی تمنّاظاہر کی لیکن وہاں کے پیروں نے یہ کہہ کر انکارکردیاکہ میاں صاحب ! ہم اس قابل نہیں ہیں جوآپ ایسے صاحبِ کمال کوبیعت کریں۔ آپ کسی ایسے پیشوا کی تلاش کریں جوآپ کو آپ کی منزل تک پہنچاسکے ۔ اس کے بعد جب کئی ایک سجادہ نشینوں نے سنا کہ حجرہ شاہ مقیم والوں نے میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوبیعت نہیں کیاتوانہوں نے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کومرید کرنے کی کوشش کی لیکن آپ کی طبعیت ان رسمی دوکانداروں سے مطمئن نہ ہوئی۔ چنانچہ آپ نے مرشدکامل کی تلاش بدستور جاری رکھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل کیا اور آپ کوحضرت باباامیرالدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ ساکن کوٹلہ شریف جیسے کامل پیشوا مل گئے جن کی صحبت سے آپ کے دل کوپوری طرح سے تسلی ہوئی۔
اکثرلوگوں سے سنا گیاہے کہ حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ کی ولادت سے پیشتر ہی ایک درویش شرقپور شریف میں آیاکرتے تھے اور آپ کے محلے میں پھرکرلمبے لمبے سانس لیاکرتے تھے۔ جیسے خوشبو کوسونگھا جاتاہے۔ کسی کے دریافت کرنے پردرویش نے کہا کہ:’’اس محلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شیرپیداہونے والاہے۔ مَیں اسی کی تلاش میں ہوں‘‘۔
ایسی روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ فقیر حضرت باباامیرالدین صاحب رحمۃاللہ علیہ ہی تھے جوولادت سے قبل ہی لوگوں کو حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کی بشارت سناتے تھے۔
آپ کومیاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیحد محبت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ آپ کی بہت عزت وتکریم کیاکرتے تھے ۔ایک دفعہ باباصاحب رحمۃ اللہ علیہ شرقپورشریف میں حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے کے لیے تشریف لائے ۔ اس وقت برسات کاموسم تھا۔ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے باباصاحب رحمۃ اللہ علیہ کے لیے چائے پکانی چاہی ۔چونکہ بارشوں کی وجہ سے لکڑیاں گیلی تھیں اس لیے میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی دستار مبارک پھاڑکر ٹکڑے ٹکڑے کرڈالی اور لکڑی کی بجائے اپنی دستارمبارک ہی سے چائے پکالی۔ جب باباصاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کشف سے یہ سب حال معلوم کیا تو فرمایا’’ہم اورشیر محمد ایک ہیں۔ ہمارے درمیان فرق سمجھنے والا بے ایمان ہے‘‘۔
اکثر باباصاحب رحمۃ اللہ علیہ یہ بھی فرمایاکرتے کہ جب اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گاکہ تُودنیا سے کیا لایاہے؟تومَیں عرض کروں گاکہ اے پروردِگارِ عالم مَیں دنیا سے ’’شیرمحمد‘‘ کو لایا ہوں۔
کئی دفعہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے پیرومُرشد حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں تشریف لے جاتے۔ وہاں کئی کئی روز رہ کر خدمت کرتے۔ چکّی پیستے، جنگل سے لکڑیاں لاتے اور گھر کے کام کاج کرتے۔ حضرت میاں صاحب رحمۃاللہ علیہ جیسے باکمال مرید اپنے پیرومُرشد کی خوشنودی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں۔ پھر کہیں جاکر یہ منزل حاصل ہوتی ہے۔
چنانچہ سلطان العارفین حضرت سلطان باہُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ایہہ تن میراچشماں ہووے مَیں مرشد ویکھ نہ رجاںھُو
لُوں لُوں دے مڈھ لکھ لکھ چشماں اک کھولاں اک کجاںھُو
اتناں ڈٹھیاں مَینوں صبر نہ آوے مَیں ہور کتے ول بھجاںھُو
مُرشد دادیدار ہے باھُو مینوں لکھ کروڑاں حجاں ھُو
آگے ارشاد فرماتے ہیں:۔
مُرشد میرا شہبازِ الہٰی ونج رلیاسنگ حبیباںھُو
تقدیرالہٰی چھکیاں ڈوراں کدی مِلسی نال نصیباںھُو
کوہڑیاں دے دکھ دورکرینداکرے شفاغریباں ھُو
ھر مرض دادارُو توہیں باھُو کیوں گھتناایں وس طبیباںھُو
جب یہ اپنے مرشد کواچھی طرح سے پہنچان لیتے ہیں،تب مرشد کی دعا سے قربِ ایزدی حاصل کرکے اعلےٰ رتبوں پرفائز ہوجاتے ہیں اورساری دنیاان کے سامنے ایک رائی کے دانہ کی مانند ہوتی ہے۔