نور اسلام - مارچ-2019

حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس سرہ العزیز > صفحہ 1

تحریر: بشارت حسین گوندل ایڈووکیٹ 


وصال :20رجب 802ہجری مزار اقدس ،نوجفائیاں ازبکستان

حضرت خواجہ علاؤالدین عطا ررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ اول اور داماد تھے۔ آپ کا نام نامی محمد بن محمد البخاری تھا آپ بچپن ہی سے فقیر کی طرف مائل تھے والدمحترم کی وفات کے بعد ان کے ترکہ کی طرف مائل نہ ہوئے بلکہ حصول علم میں مصروف رہے۔حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبندرحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بیٹی جب بالغ ہوئی توآپ خود قصر عارفاں سے چل کر شہر میں حضرت علاؤ الدینؒ کے پاس ان کے مدرسہ میں تشریف لائے اور دیکھا کہ وہ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ایک کتاب کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور ایک اینٹ تکیہ کے طور پر سر کے نیچے رکھی ہے۔آپ نے حضرت خواجہ علاؤالدین ؒ سے فرمایا کی میری ایک بیٹی ہے جو بالغ ہوئی ہے ۔اگر تم رشتہ قبول کرلوتو تمہاری اس سے شادی کردوں۔خواجہ صاحب ؒ نے عرض کیا کہ یہ اس کم ترین کے لیے بڑا باعث سعادت ہے لیکن میرے پاس دُنیوی اسباب میں سے کچھ نہیں جس سے میں خرچہ کے اخراجات پورے کرسکوں ۔فرمایا کہ میری بیٹی ہی تیرے لیے رزق ہے تجھے غیب سے رزق ملتا رہے گا۔اس کے بعد حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند ؒ نے اپنی بیٹی کا نکاح آپ سے کردیا۔نکاح کے بعد حضرت خواجہ حضرت خواجہ علاؤ الدین ؒ حضرت شاہِ نقشبندؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور طریقت سیکھنے میں مشغول ہو گئے ۔حضرت نے ان کی خاندانی رعونت ختم کرنے کے لیے حکم دیا کہ ایک ٹوکری میں سیب رکھ کربیچا کرو اور رزق حلال کماؤ ۔خواجہ صاحب نے یہ حکم قبول کیا اور ٹوکری سر پر رکھ کر بازار میں سیب بیچنے لگے۔کافی عرصہ عمل جاری رکھا حتیٰ کہ شاہ نقشبند ؒ نے آپ کو خرقہ خلافت ونیابت سے نوازاجس کے بعد آپ مخلوق خداکی رہنمائی میں مصروف ہو گئے آپ کا مزار مبارک نوجفائیاں میں واقع ہے۔

ارشادات عالیہ: 

حضرت خواجہ محمد پار ساقدس سرہ نے وہ کلمات قدسیہ جمع کیے ہیں جو حضرت خواجہ علاؤالدین ؒ قدس سرہ نے مجالس صحبت میں ارشاد فرمائے ہیں اور ان میں سے بعض تبر کاً ذیل میں درج کیے جاتے ہیں ۔
* ریاضت سے مقصود تعلقات جسمانی کی پوری نفی اور عالمِ ارواح و عالمِ حقیقت کی طرف توجہ تام ہے۔اور سلوک سے مقصود یہ ہے کہ بندہ اپنے اختیارکو کسب سے ان تعلقات سے جو موانع راہ ہیں گزر جائے اور ان تعلقات میں سے ہر ایک کو اپنے اوپر پیش کرے۔جس تعلق سے گزرجائے وہ علامت ہے اس امر کی کہ وہ تعلق گزر مانع نہیں آیا اور جس تعلق میں وہ ٹھہر جائے اور اس سے اپنی دل بستگی پائے۔ تو جان لے کہ وہ تعلق اس کے راستے کا مانع ہو گیاہے۔اس کے قطع کی تدبیر کرے ہمارے حضرت خواجہ بزرگؒ جب کوئی نیا کپڑاپہنتے توازروئے احتیاط فرمادیتے کی یہ فلاں شخص کا ہے اور بطور رعایت پہنتے ۔
* مرشد کے ساتھ تعلق اگرچہ حقیقت میں غیر ہے اور آخر میں اس کی بھی نفی کرنی چاہیے ۔مگر ابتداء میں یہ تعلق وصول کا سبب ہے اور اس کے ماسواکی نفی کرنا لوازم سلوک سے ہے۔ہر طرح سے مرشد کی خوشنودی طلب کرنی چاہیے۔
* بڑے بڑے مشائخ قدس ؒ ارواحہم کا ارشاد ہے۔ التوفیق مع السعی (توفیق کوشش کیساتھ ہے )۔اسطرح مرشد کی روحانیت کی مدد طالب کیلئے بقدر کوشش طالب کے ہوتی ہے۔جو شیخ مقتدا کے امر سے ہو ۔بغیر اس کوشش کے مرشد کی مدد کو بقانہیں کیونکہ طالب کی طرف شیخ کی توجہ چند روز سے زیادہ باقی نہیں رہتی ۔
* جب ملک الموت طالب سے پوشیدہ فراموش ہوجائے تو یہ مرتبہ فنا ہے اور جب سالک کی ہستی بھی سالک سے پوشیدہ ہو جائے تو مرتبہ فناء الفنا ہے ۔
* جباری کی صفت کے دیکھنے کا مقصود تضرع وزاری اور توجہ وانابت کی صفت کاظہور ہے اور اس دید کی صحت کی نشانی مناجات کی طرف مائل ہونا ہے نہ کہ خرافات کی طرف "فالھمھا فجورھا و تقوھا" ترجمہ :"پس جی میں ڈالی اُس کے بدکاری اُس کی اور پرہیزگاری اس کی "(سورۃ شمس)اس میں حکمت یہ ہے کہ جب رجاکاارادہ میلان دیکھے تو شکر کرے اور اسی پر چلے۔ اور جب عدم رجاکا ارادہ میلان دیکھے تو تضرع کرے اور حق سبحانہ کی طرف رجوع کرے اور استغناء کی صفت سے ڈرے۔
* خداتعالیٰ کی سابقہ عنایت ازلی کا خیا ل کرنا چاہیے اور اس عنایت بے علت کی امیدواری سے اور اس عنایت کی طلب سے ایک لحظہ غافل نہ ہونا چاہیے اورا پنے تئیں استغنا سے بچانا چاہیے اور حق سبحانہ کی تھوڑی چیز کو بڑاسمجھنا چاہیے اور استغنائے حقیقی کے ظہو ر سے ڈرتے اور کانپتے رہنا چاہیے۔
* ولایت جب ثابت ہوتی ہے کہ سالک کو اوصاف حیوانی کے ساتھ نہ چھوڑیں کہ اگر کوئی قصور سر زد ہو تو باز پرس ہو۔
"اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْن"
"آگاہ رہو کہ خدا کے دوستوں کے لئے کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے" (آیت ۶۲،سورۃ یونس)
فرمایا کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اولیاء اللہ کو سابقہ اوصاف حیوانی کے ظہور کا خوف نہیں کیونکہ مشائخ کا ارشاد ہے "الفانی لایردالی اوصافہ" یعنی صاحب فناء اپنے اوصاف کی طرف نہیں لوٹایا جاتا۔مشائخ کبائر قدس اللہ تعالیٰ ارواحہم کے مزارات سے زیارت کرنے والا اسی قدر فیض لے سکتا ہے جس قدر اس نے اس بزرگ کی صفت کو پہچانا ہے اور اس صفت کی طرف متوجہ اور اس میں مستغرق ہوتاہے اگرچہ مزارات مقدسہ کی زیارت میں ظاہری قرب کا بہت اثر ہے لیکن حقیقت میں ارواح مقدسہ کی طرف توجہ کے لئے ظاہری دوری مانع نہیں ہے ۔حدیث نبویﷺمیں وارد ہے کہ صلو اعلی حیثماکنتم(تم مجھ پر درود بھیجو جہاں کہیں تم ہو)یہ اس امرکا بیان اور دلیل قاطع ہے اور اس توجہ اور زیارت میں اہل قبور کی صفت کو پہچاننے کے مقابلہ میں ان اہل قبور کی مثالی صورتوں کا مشاہد ہ چنداں وقعت نہیں رکھتا ۔حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ فرماتے تھے کہ خالق سبحانہ کا مجاورہونا مخلوق کی مجاورت سے احق واولیٰ ہے ۔اور آپ اکثر یہ بیت پڑھا کرتے تھے۔

تو تاکے گورمرداں راپرستی
بگروکامرداں گعدورستی

اکابرین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات سے مقصود یہ ہونا چاہیے کہ توجہ حق سبحانہ کی طرف ہو اور اس برگزیدہ حق کی روح کو خدا کی طرف کمال توجہ پیداکرنے کا وسیلہ بنائے ۔مخلوق کے ساتھ تواضع کی حالت میں چاہیے کہ اگرچہ ظاہر میں تواضع مخلوق کے ساتھ ہو مگر حقیقت میں خالق عزوجل کے ساتھ ہو کیونکہ مخلوق کے ساتھ تواضع وقت پسندیدہ ہے کہ خالص خدائے عزوجل کے لئے ہو بدیں معنی کہ مخلوق کو خالق کی قدروحکمت کے آثار کا مظہر سمجھے ورنہ یہ تصنع ہے نہ کہ تواضع۔
* خاموشی تین صفتوں سے خالی نہ ہونی چاہیے خطرات کی نگہداشت یادل کے ذکر کا مطالعہ جو ہو گیا ہو یا ان حالات کا مشاہدہ جو دل پر گزرتے ہیں۔ خطرات مانع نہیں ان سے بچنا دشوار ہے خطرات کا روکنا بڑا کام ہے۔بعضوں کی رائے ہے کہ خطرات کا کچھ اعتبار نہیں لیکن خطرہ کو متمکن نہ ہونے دینا چاہیے کیونکہ ان کے متمکن ہونے سے فیض کی انتڑیوں میں سدّہ پیدا ہو جاتا ہے اس لئے ہمیشہ باطن کے حالات کی جستجو چاہیے اورحضور یا غیب میں مرشد کے حکم سے سانس لے کر اپنے آپ کو خالی کرنا بظاہر ان خطرات کی نفی کے لئے ہے جو باطن میں متمکن ہو گئے ہوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر معنی ایک صورت کے پا س میں ہوا کرتا ہے۔اس لئے ہر وقت اپنے تئیں ان خطرات وموانع سے جومتمکن ہوگئے ہوں سانس لے کر خالی کرنا چاہیے۔
* اپنے آپ سے غیبت اور حق سبحانہ کے ساتھ حضور قدر عشق کے ہوتا ہے اور افراط محبت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔عشق جس قدر زیادہ ہوتا ہے اسی قدر عاشق کو اپنے آپ سے غیبت اور معشوق کے ساتھ حضور زیادہ ہوتا ہے ۔