نور اسلام - مارچ-2019

وقت کی قدر کریں > صفحہ 1

کاوش: محمد جاوید اقبال شرقپوری پنجاب یونیورسٹی 

اپنے آپ سے پیار کریں کیونکہ زندگی بار بار نہیں ملتی یہ بازار سے بھی نہیں ملتی ۔جو سانسوں کے تسلسل کو غنیمت جان کر وقت کی قدر کرتے ہیں وہ ہمیشہ کامیاب وکامران رہتے ہیں ، خود بیکار نہیں رہتے لہذا ان کے ہاتھ فارغ وقت لگ جائے یا کوئی بے کار چیز وہ اس کو نفع بخش اور کارآمد بنالیتے ہیں ۔جبکہ وقت کی مہلت سے غفلت برتنے والے بند مٹھی سے سرکتی ریت کی مانند ہوامیں بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ سلطان عدل حضرت عمرؓ نے اس سلسلہ میں خوب فرمایا ہے" جس شخص کا گزرا ہوا وقت اور موجودہ دن یکساں رہے ،وہ خسارے میں ہے"کیونکہ یہ اس لئے ہے کہ وقت کی چکی کے پاٹ اگر چل رہے ہوں تو فائدے کا اناج ملنا ضروری ہے۔ آپ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر اقوام کا مشاہدہ کر لیں کہ ترقی یا فتہ لوگ کام کرتے وقت سستی کی بجائے چستی کا مظاہرہ کریں گے ترقی پذیر لوگ چائے کی چسکیوں اور سگریٹ کے دھوئیں میں مست وبے خود نظر آئیں گے مختلف نو ع کی خصو صیات کو ہمارے ہاں اتنی پذیرائی حاصل ہے کہ کئی ارب روپے سگریٹ،پان اور چائے وغیرہ میں اڑ جاتے ہیں وہ شخص بہت عجیب لگتا ہے جو سگریٹ کا کش لیکر دھواں چھوڑتے ہوئے اپنی تنگدستی و مفلسی کا رونا روتا ہے 
دنیا کی اولین ماڈل ریاست "مدینہ طیبہ"کے باسیوں نے خوب مثالیں قائم کیں۔ حکیم تو ہے بیمار کوئی نہیں کیونکہ وہ بھو ک لگنے پر کھانا کھاتے ہیں بھوک ختم ہونے سے پہلے کھانا چھوڑدیتے ہیں۔ میں نے غور کیا کہ کہیں چل کر جانا ایک عمومی بات ہے مگر صحابہ کرامؓ کہتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقاﷺ جب چلتے تو محسوس ہوتا جیسے آپ کسی نسبتاً اونچی جگہ سے تشریف لا رہے ہیں ۔یعنی اس میں بھی وقت اور توجہ کی حفاظت رہتی تھی انہوں نے آقاﷺ کی ہر ایک ادا سنت بنالی ۔یہی وہ خوش نصیب لوگ ہیں جنہو ں نے زندگی کے پھل کا ہر ایک ذائقہ چکھا ہے ۔ 
انہوں نے اعلیٰ کردار سے زندگی گزاری ہے ہم زندگی کو گھسیٹ رہے ہیں ان کا ہرایک لمحہ آباد ہے ۔ہم دنوں پر دن برباد کر رہے ہیں ۔وہ بازار سے گزرتے تو ادھر ادھر نہ دیکھتے ہمارے ہاں کسی جگہ بجلی کا کھمبا لگ رہا ہو تو سارادن وہیں گزر جاتاہے ۔حالانکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے۔یقیناًاس زندگی کا کچھ نہ کچھ مقصد ہونا چاہیے۔صرف کمانا ،کھانا، پینا ،سونااور بچے پیدا کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔جانور بھی کھاتے،پیتے ،سوتے اور بچے پیدا کرتے ہیں جبکہ ہم اشرف المخلوقات ہیں ۔ ہم اللہ کو راضی کرنے کے لیے کوئی تو مقصد اپنائیں۔رسول اکرم ﷺ کی خوشنودی کے لیے کچھ وقت ہی صرف کردیں جو پیٹ بھرنے کے لیے چند ٹکے ہمارے ہاتھ پر رکھتا ہے،اسے تو ہر روز آدھا وقت دیتے ہیں ۔ جو عمر بھر کی خوراک کا ضامن ہے اسے مہینے بھر میں ایک دن ہی دے دیں صرف ایک ہی دن اللہ کے لیے وقف کردیں۔ اس کے رسول ﷺ کو راضی کر لیں اس کے بندوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر گامزن کردیں۔ حدیث پاک ہے۔ مرے ہوئے شخص کی سب سے بڑی تمنا اور خواہش ہو گی،’’ اے میرے پروردگار میری ساری دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے سب لے لیجئے صرف ایک دن کی مہلت دے دیجئے میں تجھے راضی کرنا چاہتا ہوں ۔ تجھے منانا چاہتا ہوں۔‘‘
مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکتا ۔پروردگار نے جو مہلت دی تھی ختم ہوچکی ہوگی اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں لیکن ہمارے لیے ابھی سارے راستے کھلے ہیں ۔ یہی بات بظاہرمجنوں لیکن حقیقتاًعقلمند حضرت بہلول داناؒ نے بھی سمجھائی خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا بہلول بازار میں کیوں بیٹھے ہو حضرت بہلول ؒ کہنے لگے ان بندوں کی خدا کے ساتھ صلح کروا رہا ہوں ۔ خلیفہ مسکرایا اور پوچھا کہ کیا صلح ہوگئی؟بہلول دانا ؒ نے جواب دیا نہیں !خدا تو صلح کے لیے مان رہا ہے لیکن یہ لوگ نہیں مان رہے خلیفہ نے جواب سن کر سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا چند دن گزرے خلیفہ نے بہلول داناؒ کو قبرستان میں بیٹھے ہوئے دیکھا خلیفہ نے پھر سوال کیابہلول ؒ یہاں قبرستان میں کیوں بیٹھے ہوئے ہو؟ بہلول داناؒ نے جواب دیا کہ ان بندوں کی خدا سے صلح کروا رہا ہوں۔خلیفہ نے مسکرا کر پوچھا کہ کیا صلح ہوگئی ؟بہلول دانا ؒ نے جواب دیا کہ نہیں بندے تو مان رہے ہیں لیکن مگر اب خدا نہیں مان رہا ۔ 
ہمارے پاس تو ابھی وقت باقی ہے ۔ مان جایئے !لمحہ لمحہ شمار کیجئے وقت ضائع نہیں بلکہ استعمال کیجئے اپنے اللہ کو راضی کیجئے ۔ آپ تبلیغ وتربیت یا نماز کے لیے یہ نہیں کہیں کہ مجھے کام ہے بلکہ کام سے کہیں کے مجھے اپنے اللہ کو راضی کرنا ہے۔
(مجلہ حضرت کرماں والا سے ماخوذ)