نور اسلام - مارچ-2019

حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ > صفحہ 1

تحریر : ماسٹر محمد اشرف شاد ؔ 

پیدائش : 404 ؁ء۔164 ؁ء قبل عام الفیل ،بمقام:اصفہان (ایران )۔وصال :10رجب 33 ؁ ہجری ۔مزار اقدس:مدائن (عراق)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوتا ہے۔آپؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔ آپؓ کا تعلق ایک مجوسی خاندان سے تھا ۔ آپؓ نے مجوسی مذہب سے بیزار ہو کر پہلے تو یہودی مذہب اختیار کیا اورپھر عیسائیت قبول کرلی ۔ ایک عیسائی راہب نے مرتے وقت آپ کونبی آخرالزماںﷺکی بشارت دی کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں سکونت پذیر ہوں گے اورساتھ ہی چند نشانیا ں بھی دیں۔ چنانچہ آپ مدینہ شریف کی طرف عازم سفر ہوئے ۔راستہ میں ایک شخص نے آپ کو غلام بنالیا اور ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ہجرت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپؓ نے تمام نشانیاں درست پائیں لہذا حاضر خدمت ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ نبی ﷺ نے آپؓ کے یہودی آقا کو قیمت ادا کر کے آپؓ کو آزاد کرالیااور اس کے بعد آپؓ اصحاب صفہ میں شامل ہوکرہمیشہ حضور رحمت عالم ﷺ کے پاس رہے۔آپؓ نے صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بڑا رتبہ پایا حاصل کیا ۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ خندق اور غزوات مابعد میں بھی شامل ہوئے ۔غزوہ احزاب میں جب خندق کھودنے لگے تو حضور نبی کریم ﷺ نے خندق مسلمانوں میں تقسیم فرما دی ۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں مہاجرین وانصار میں اختلاف پیدا ہوا ہر ایک فریق کا دعویٰ تھا کہ سلمان ہم میں سے ہیں۔اس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سلمان منا اھل البیت‘‘(سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے)۔
آقائے نامدارﷺکا ارشاد ہے کہ سابقین چار ہیں ۔1۔سابقِ عرب مَیں ہوں 2۔ صہیب سابقِ روم ہیں 3۔سلمان سابقِ فُرس ہیں4۔بلال سابقِ حبشہ ہیں۔آپ ان تین صحابیوں میں سے ہیں جن کا بہشت مشتاق ہے۔آپ ان چار صحابہ میں سے ہیں جن کو خدا دوست رکھتا ہے اوراپنے حبیب پاک ﷺ کو ان کی دوستی کا ارشاد فرماتا ہے۔آپ ان چار بزرگوں میں سے ہیں جن کی نسبت حضرت معاذبن جبل نے اپنی وفات کے وقت وصیت کی کہ ان کے پاس علم تلاش کرنا۔
آپ کو حضرت عمر فاروقؓ نے مدائن کا گورنر بنا دیا تھا ۔ اور پا نچ ہزار درہم سا لانہ آپ کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا ۔جب آپ کو وظیفہ ملتا تو آپ اسے راہ خدا میں خرچ کردیتے اور بوریا بانی سے اپنا گزارہ کرتے ۔آپ کا کوئی گھر نہ تھا دیواروں اور درختوں کے سایہ میں رہا کرتے ۔ایک شخص نے عرض کیا میں آپ کی سکونت کے لئے گھر بنا دیتا ہو ں۔ فرمایا مجھے گھر کی ضرورت نہیں۔ اس نے اصرار کیا اور کہا کہ جس قسم کا گھر آپ کی طبیعت کے موافق ہے وہ مجھے معلوم ہے ۔فرمایا کہ بیان کرو اس نے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے ایسا گھر بنا دیتا ہو ں کہ جب آپ اس میں کھڑے ہوں توآپ کا سر مبارک اس کی چھت سے لگے اور جب پاؤں پھیلائیں توپاؤں کی انگلیا ں دیوار سے جالگیں ،فرمایادرست ہے ، چنانچہ اس نے ایسا ہی گھر تیار کردیا ۔
آپؓ کے پاس ایک دھاری دار کملی تھی۔جس کا کچھ حصہ آپؓ اوڑھ لیتے اور کچھ نیچے بچھالیتے ۔ گورنری کی حالت میں بھی یہی کملی آپؓکے پاس رہتی ۔ بعض نا واقف لوگ آپ کی ظاہری حالت دیکھ کر آپ سے بطور مزدور اپنا اسباب اٹھواتے جب راستے میں ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ امیر شہر ہیں تو عذر کرتے کہ ہم خود اٹھا لیتے ہیں مگر آپ فرماتے کہ حسب وعدہ منزل تک پہنچا کر ہی آؤں گا ۔
جب آپ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنی زوجہ محترمہ سے کہا ، کچھ کستوری جو تمہارے پاس ہے اسے پانی میں گھول کر میرے سر کے گرد چھڑک دو کیونکہ اب ایک قوم آنے والی ہے جو نہ انسان ہیں نہ جن ،آپ کی زوجہ محترم فرماتی ہیں کہ میں آپ کا ارشاد بجا لا ئی اور گھر سے با ہر نکلی تو آواز آئی؛ السلام علیک یا ولی اللہ السلام علیک یا صاحب رسول اللہ جب میں اندر گئی تو کیا دیکھا کہ آپ کی روح پرواز کر چکی ہے اور آپ اس طرح لیٹے ہوئے ہیں ،جیسا کہ سورہے ہیں ۔ آپ کی عمر وصال کے وقت اڑھائی سو سال تھی ۔

ارشاداتِ عا لیہ

1۔ مومن کا حال دنیا میں مثل اس بیمار کے ہے جس کے ساتھ اس کا طبیب ہو جو اس کی بیمار ی اور دوا کو جانتا ہے ۔ جب مریض کسی مضر چیز کو چا ہتا ہے تو اسے منع کردیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اگر تم اسے کھاؤ گے تو ہلاک ہو جاؤ گے ۔ اسی طرح مومن بہت سی چیزوں کو چا ہتا ہے ۔پس اللہ عزوجل اس کو ان سے روک دیتا ہے ۔ یہا ں تک کے وہ مر جاتا ہے بہشت میں داخل ہو جاتا ہے
2۔ تعجب ہے طالب دنیا پر جس کو موت طلب کر رہی ہے اور تعجب ہے اس غافل پر جس کو فراموش نہیں کیا گیا اور تعجب ہے اس ہنسنے والے پر جو یہ نہیں جانتا کہ اس کا پر ور دگا ر اس سے راضی ہے یا نا خوش ۔
3۔ رسول اللہ ﷺنے ہم سے یہ عہد لیا تھا کہ تمہارا روزینہ مثل توشہ سوار کے ہونا چاہیے۔ 
4۔ آپؓ جب اپنی خادمہ کو کسی کام سے بھیجتے تو آٹا خود ہی گوند لیتے اور فرماتے کہ ہم اس سے دو کام نہیں لیتے ۔
5۔ آپ بوریا بانی ( یا زنبیل بانی ) کرتے اور فرماتے کہ میں ایک درہم کے برگ خرما خریدتا ہو ں اور اس سے بوریا/ز نبیل تیارکرکے تین درہم پر بیچ دیتا ہوں۔ان میں سے ایک درہم خیرات کردیتا ہوں ،ایک درہم برگ خرما خرید نے کے لیے پس انداز کر لیتا ہو ں اور ایک درہم اپنے عیال پر خرچ کردیتا ہوں
6۔ گورنر ی کی حالت میں ایک جماعت آپ کے پاس آئی اور آپ بوریا بانی کر رہے تھے۔انہوں نے پوچھا کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں جبکہ آپ گورنر ہیں اور آپ کا وظیفہ بھی مقرر ہے ؟آپ نے فرمایا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ہاتھ کی کما ئی سے کھاؤ ں ۔
7۔ حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ حضرت سلمانؓ نے حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے کہا: پیارے بھائی ہم میں سے جو پہلے وفات پائے ،وہ دوسرے کو خواب میں دکھائی دے ۔حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا ، کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟حضرت سلمان فارسیؓ نے فرمایا کہ ہاں ؛ْ مومن بندے کی روح آزاد ہوتی ہے،جہاں چاہتی ہے چلی جاتی ہے اور کافر کی روح قید خانے میں ہوتی ہے ۔
پس حضرت سلمان فارسی نے پہلے وصال کیا اورحضرت عبداللہؓ کا بیان ہے کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت قیلولہ کر رہا تھا ،کیا دیکھتا ہو ں کہ حضرت سلمان تشریف لائے ہیں۔انہوں نے کہا السلام علیکم ورحمتہ اللہ ،میں نے جواب میں کہا ،وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ،اے ابو عبداللہ!تو نے اپنا مقام کیسا پایا ؟ حضرت سلمان نے کہا کہ خوب ہے۔ پھر تین بار فرمایا ؛توُ تو کّل اختیا ر کر کیو نکہ تو کّل اچھا ہے۔
8۔ بازار میں سب سے پہلے داخل نہ ہواور نہ سب سے آخر میں نکل ،کیونکہ وہ معرکہ شیطان ہے اور وہاں اس کا جھنڈا گڑھا ہوتا ہے ۔
9۔ آپ نے حضرت ابوالدردا ء سے کہا کہ تیرے نفس کا تجھ پر حق ہے اور تیرے رب کا تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے اور تیرے اہل کا تجھ پر حق ہے۔پس ہر ایک حق دار کو اس کا حق عطا کر۔پھر وہ دونوں پیغمبرپاکﷺ کے پاس آ ئے اور حضور ﷺسے بات کا ذکر کیا ۔حضور ﷺ نے فرمایا ؛سلمان نے سچ کہا ہے ؛(جامع تر مذی)