نور اسلام - مارچ-2019

حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس سرہ العزیز > صفحہ 3

حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی اسلامی تربیت اتنی مکمل تھی کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں نسلی وقبائلی تعصبات کو نہیں ابھرنے دیا۔ ان کے فیصلے حق و صداقت اور حقیقت شناسی پر مبنی ہوتے تھے۔ ابتدائی فتوحات کے بعد جب یہ محسوس ہوأ کہ عرب مسلمانوں کو اب واپس جانے کی ضرورت نہیں تو ایک بہت نازک مسئلہ درپیش آیا کہ مالِ غنیمت کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔ مال منقولہ کی حد تک اس میں کوئی دشواری نہ تھی لیکن مفتوحہ اراضی کا معاملہ دوسرا تھا۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنی فراست اور دانائی سے محسوس کیا کہ اگر اسلامی فوج کے سپاہیوں کو ہزاروں لاکھوں مربع میل کا علاقہ دے دیا گیا۔ تو ایک طرف تو دولت گنتی کے چند لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے گی جو قرآن کے فرمان کے خلاف ہے دوسرے حکومت کی ضرورتیں 1/5 علاقے اور مسلمانوں کی زکوٰۃ سے پوری نہ ہو سکیں گی۔ اس لئے ساری زمینیں وقف ہو کر حکومت کے ہاتھ میں رہیں۔ اب کسی کو کوئی اختلاف نہ رہا۔ حضرت عمرؓ کی فراست نے اسلام اور قرآن مجید کو قابل عمل چیز ثابت کر دیا۔ محکوم و مظلوم ہونے کے زمانے ہی میں نہیں بلکہ غالب اور تین براعظموں پر حکمرانی کے زمانے میں بھی۔
دولت کی اس ریل پیل کے زمانے میں اگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی جگہ کوئی دنیا حکمران ہوتا تو نو دولت عرب اصول و اخلاق بھی کھو دیتے اور جلد ہی دنیا سے غائب ہو جاتے اور ان کے ساتھ ان کا دین بھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نہ صرف اپنی ذات پر اسراف کرتے تھے اور نہ سرکاری بل کا ایک حصہ بھی ناجائز منافع خرچ ہونے دیتے۔ گورنروں پر انتہائی شدید نگرانی رکھتے۔ تقرر کے وقت ان کی دولت کی مقدار معلوم کرتے۔ پھر وقتاً فوقتاً جانچ پڑتال کراتے اور اگر مشتبہ زیادتی نظر آتی تو نہ صرف معزول کرتے بلکہ نصف جائیداد بھی ضبط کر لیتے۔ تقرر نامے میں صراحت سے شرط ہوتی کہ وہ شاندار ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھے۔ چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائے۔ باریک اور ملائم لباس نہ پہنے۔ دروازے کو بند کر کے چوکیدار نہ رکھے بلکہ ہر شخص ہر وقت اس سے ملاقات کر سکے۔ چنانچہ ان اصولوں کی خلاف ورزی پر انہوں نے کئی گورنروں کو نہ صرف معزول کیا بلکہ انہیں حسبِ موقع سزائیں بھی دیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری زمینیں سابق حکمران کی صرف خاص کی جاگیروں اور مفرور یا مقتول زمینداروں کی اراضی ان کے بیگاری کسانوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے زمین کا مالک بنا دیا۔ ان کا برتاؤ غیر مسلموں سے عدل و احسان کا تھا۔ ان کے زمانے کے ایک نسطوری عیسائی کا خط محفوظ ہے جِس نے اپنے ایک دوست کو لِکھا: اور یہ طائی (یعنی عرب) جن کو اللہ تعالیٰ نے آج کل حکومت دی ہے۔ ہمارے بھی مالک (حاکم) بن گئے ہیں لیکن وہ عیسائی مذہب سے جنگ نہیں کرتے بلکہ وہ ہمارے ایمان کی حفاظت کرتے (ہمیں دوسرے فرقوں کی ایذا رسانی سے بچاتے) ہیں۔ ہمارے پادریوں اور مقدس لوگوں کا احترام کرتے ہیں اور ہمارے گرجاؤں اور راہب خانوں کو عطیے دیتے ہیں۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ عدل کرنے میں مسلم اور غیر مسلم لوگوں سے یکساں سلوک کرتے تھے۔ اس لئے نسطوری عیسائی آپ کی عدل کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا اور آپ کے عدل کی تعریف کرتے ہوئے اپنے ایک دوست کو خط لِکھا ’’حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ عیسائیوں کے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ آپ نے عدل و انصاف کے ساتھ اسلامی مساوات بھی قائم کی۔
ناجائز قابضین سے زمینیں و از گزار کرا کے حکومت کی تحویل میں لیں۔ اس طرح حکومت کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ ہوأ جو کہ کم آمدنی والے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا یا پھر فوج کی تیاری میں خرچ ہوتا۔ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اپنی جان مالک حقیقی کو پیش کرنے سے پہلے جو وصیت فرمائی وہ ہمیشہ اہلِ ایمان کی رہنمائی کرتی رہے گی۔ زخمی ہونے کے بعد آپ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو بلا بھیجا اور یہ وصیت فرمائی ’’غیر مسلم رعیت کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔‘‘ بیت المال کا کچھ قرض آپ کے ذمہ تھا۔ اپنے بیٹے کو بلا کر تاکید کی کہ بیت المال کا قرض فوراً ادا کر دیا جائے۔ عہد فاروقی عدل و انصاف کے لحاظ سے ایک سنہری دور تھا جِس کی چند جھلکیاں قارئین کی نظر کی گئیں ہیں۔ پاکستان بہت سی برائیوں میں گرا ہوأ۔ مثلاً سود، زنا بالجبر، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان، رشوت ستانی، سفارش، دہشت گردی، غربت، مہنگائی، ڈاکہ زنی وغیرہ۔ ہماری نئی نسل کو یہ برائیاں ورثہ میں منتقل ہو رہی ہیں۔ قوم حالات سے دل برداشتہ ہو چکی ہے۔ وہ کسی مُصلح کی تلاش میں ہے۔ حکمرانوں کے لئے ایک صائب مشورہ ہے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی سیرت مبارکہ سے روشنی حاصل کرتے ہوئے عدل فاروقی کے نظام کو پھر سے رائج کریں اور قوم کے زخموں پر مرہم رکھیں۔ اس کے لئے آزاد عدلیہ کا قیام نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اچھے فیصلے کرنے میں رہنمائی اور مدد فرمائے۔ اس دارِ فانی کو چھوڑنے سے پہلے اچھے عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔