حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ

کشادہ دسترخوان > صفحہ 1

 

سید جمیل احمدرضوی تحریرکرتے ہیں کہ فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ تحقیق اورعلمی کام کرنے والوں کے ساتھ بہت شفقت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ان کی شفقت کے اندازمختلف تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ جب ان کی صحت اچھی تھی تووہ احقرکے مسکن پرتشریف لے آتے تھے۔ ایسابھی ہوتاتھاکہ شرقپوری شریف بلالیتے تھے۔ ان کی مہمان نوازی قابل دید ہوتی تھی۔ ویسے تو سب کے لیے ان کا لنگر کھلا تھا۔ لیکن اہل قلم حضرات کے ساتھ خصوصی برتاؤ روارکھا جاتا تھا۔ پیر زادہ اقبال احمد فاروقی، مدیر جہان رضا، لاہور اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’صاحبزادہ میان جمیل احمد صاحب شرقپوری رحمۃاللہ علیہ ایک طرف روحانی پیشوا اور پیر ہیں۔ دوسری طرف ان کے حلقہ میں علماء کرام، دانشور، شعراء اور اہل قلم حضرات کی ایک خاصی تعداد پائی جاتی ہے۔ ان کا دستر خوان کھلا ہے ۔ اگر میں کھلا کی بجائے وسیع کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ وہ اہل علم و فضل کو گھر بلا کر میزبانی ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس پہنچ کر اپنا مہمان بنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔

سیدجمیل احمدرضوی صاحب، سابق چیف لائبریری، پنجاب یونیوسٹی لائبریری، لاہورکابیان ہے’’ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے 31۔جولائی 2001ء کوپنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کوایک مکتوب ارسال کیاتھا۔ اس میں انہوں نے اپناذخیرۂ کتب یونیورسٹی کو بطورعطیہ دینے کاارادہ ظاہرکیاتھا۔راقم السطوراس وقت چیف لائبریرین ، پنجاب یونیورسٹی لائبریری،لاہورکی حیثیت سے کام کررہاتھا۔ وائس چانسلرآفس کی طرف سے وہ مکتوب مجھے بھیج دیاگیاتاکہ مَیں اس حوالے سے اپنی رائے دوں۔مَیں نے مناسب سمجھاکہ اپنی رائے دینے سے پہلے اس ذخیرۂ کتب کودیکھ لینا چاہیے۔ چنانچہ مَیں نے 2۔اگست 2001ء کو اس مقصد کے لیے شرقپورشریف جانے کے لیے وائس چانسلر آفس سے فون پررابطہ کیا۔ مجھے اس کی اجازت مل گئی۔ اُس وقت چوہدری محمدحنیف صاحب سینئرلائبریرین (موجودہ چیف لائبریرین) کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔مَیں نے اُن سے کہاکہ وہ بھی میرے ساتھ چلیں۔
اس وقت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خادم ؍مریدخاص محمدمعروف احمدصاحب سے رابطہ کیااوران سے کہاکہ ہم آج ہی شرقپورشریف جاناچاہتے ہیں۔ معروف صاحب اس روز بعد دوپہربارہ بجکرپنتالیس منٹ پرگاڑی لے کر آگئے اورہم تینوں شرقپورشریف کے لیے روانہ ہوگئے۔ معروف صاحب نے اس بارے میں حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوبھی اطلاع کر دی تھی۔ہم دوبجے بعد دوپہرکے قریب شرقپورشریف پہنچ گئے۔

جب میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوہماری حاضری کی اطلاع دی گئی توآپ تشریف لے آئے اوربہت تپاک اورشفقت سے ملے ۔دوپہرکے کھانے کاوقت تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کاانتظام کیاہواتھا۔ جب ہم ڈائننگ روم میں پہنچے توایساوسیع وعریض دسترخوان دیکھاجس میں انواع واقسام کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ اس کمرے کی تزئین وآرائش بھی قابلِ دید تھی۔ اس کودیکھ کراحساس ہورہاتھاکہ یہ کسی انسانی ہاتھ نے ترتیب نہیں دیابلکہ اس کو کسی فوق البشرطاقت نے آراستہ کیا ہے۔ اتنے کم وقت میں اتناوسیع وعریض اورحیران کن طورپر مزین دسترخوان آراستہ کرناکسی عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔مَیں نے ایساوسیع اورحیران کن طورپر مزین دسترخوان کسی میز بان کے گھر میں کبھی نہیں دیکھا ( تصّرفات، کشف وکرامات فخرالمشائخ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندمجددی رحمۃاللہ علیہ ، ص۔100تا102)۔