آپ ﷺ کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا ہمیشہ خیال رہتا تھا۔آپ ﷺ نے ان والدین کو جو بالخصوص تین ( یا دو) بچیوں کو تعلیم و تربیت کا اچھی طرح حق ادا کرکے ان کا مناسب گھرانوں میں نکاح کر دیتے ہیں ، انہیں جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ آپ ﷺ کے نزدیک والد کا اپنے بچوں کو ادب سکھانا ایک صاع صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ (سیرت خیر الانام ﷺ: اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، جامعہ پنجاب ، لاہور،272-273)۔
حضرت میا ں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کواللہ تعالیٰ نے پانچ صاحبزادیوں اور تین صاحبزادوں سے نوازا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے تمام بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اچھی تعلیم و تربیت کا یہ نتیجہ نکلا کہ دو صاحبزادگان شمس المشائخ حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃ اللہ علیہ اور فخر المشائخ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری رحمۃاللہ علیہ ولی کامل بنے۔ ہزاروں لوگ ان دونوں صاحبزادگان کے دست حق پرست پر بیعت کرکے فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔
حضرت میاں غلام احمدشرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی دینی تعلیم کی ابتداء قرآن مجید سے کی گئی۔ مختصر وقت میں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن پاک پڑھ لیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کواسلامیہ پرائمری سکول شرقپور شریف میں داخل کر ا دیاگیا۔ پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے گورنمنٹ ہائی سکول شرقپور شریف میں داخلہ لیا اورمیٹرک کا امتحان بھی اعلیٰ نمبروں میں پاس کر لیا۔ اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کو طبیہ کالج لاہور میں داخل کروا دیاگیا۔ وہاںآپ رحمۃ اللہ علیہ نے طب کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا۔
اس کے علاوہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید ، حدیث ، فقہ ، تاریخ اور دیگر علوم کا مطالعہ فرمایا ۔ خطبہ جمعۃالمبارک کے موقع پر آپ رحمۃ اللہ علیہ قرآن مجید و حدیث کے اسرار و رموز اور فقہی مسائل بہترین انداز میں بیان فرماتے تھے۔
اسی طرح حضرت میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی دینی تعلیم کی ابتداء بھی قرآن پاک سے کی گئی۔ آپ نے سات سال کی عمر میں مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن مجید پڑھ لیا۔ پھرآپ نے علوم اسلامیہ کی ابتداء کی۔ چنانچہ آپ کے والد گرامی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے سعدی شیرازی کی مشہور زمانہ کتب گلستاں اور بوستاں وغیرہ پڑھائیں۔ علوم اسلامیہ کے بعد آپ نے مذہبی کتب فارسی، عربی اور اردو کا مطالعہ جاری رکھا۔ آپ نے پرائمری کا امتحان 1944 ء میں اسلامیہ پرائمری سکول شرقپور شریف سے پاس کیا اور میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ گورنمنٹ ہائی سکول شرقپور شریف سے پاس کیا ۔ پھر آپ نے طبیہ کالج لاہور سے طب میں بھی مہارت حاصل کی۔
حضرت میاں غلام اللہ صاحب شرقپوری رحمۃاللہ علیہ نے سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے صاحبزادگان حضرت میاں غلام احمدرحمۃ اللہ علیہ اور حضرت میاں جمیل احمد صاحب شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کے سنت کے مطابق پیدائش کے بعد ساتویں روز عقیقے کیے۔
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃاللہ علیہ نے اپنی صاحبزادیوں کی شادی کے موقع پر نکاحِ مسنونہ کے وقت سنت نبوی ﷺ کے مطابق براتیوں کو کھانا کھلایا ۔
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃاللہ علیہ نے اپنے دونوں صاحبزادگان کی شادیوں کے موقع پر سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے دعوات ولیمہ کیں۔
آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواپنی آغوش میں پالا۔ جوان ہونے پر اپنی سب سے زیادہ لاڈلی اورچہیتی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیاہ دیا۔ ان کی اولاد کو اتنا پیار اور اتنی شفقت دی کہ اولاد سے محبت و شفقت کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ اس طرح ان کی ہمشیرہ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ ﷺ حقیقی بہنوں جیساسلوک فرماتے تھے عموماً دوپہر کوان کے گھر یا ان کی والدہ کے گھر میں آپ ﷺ استراحت (قیلولہ) فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت جعفر بن ابی طالب آپ ﷺکے پاس آئے تو آپ ﷺ نے اٹھ کر ان کو گلے لگایا اور ان کی پیشانی کو چوما غرضیکہ آپ ﷺ تمام رشتہ داروں سے بہت محبت و شفقت سے پیش آتے جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔(سیرت خیر الانام ﷺ : شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، جامعہ پنجاب ، لاہور،ص263-264)۔
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں اپنے عزیزوں، رشتہ داروں کی شادی اور غمی میں شریک ہوتے تھے ۔ بیماروں کی مزاج پرسی کرتے اوران کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ جنازوں میں شرکت فرماتے، مرحومین کو ایصال ثواب فرماتے۔ ان کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی فرماتے ، ان کی دلجوئی فرماتے، عزیز واقارب سے ملتے اور ان کی خوشی و غمی میں شرکت فرماتے۔
حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی منظم طبیعت تھی۔ اعلیٰ حضرت میاں شیرمحمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے بعدآپ رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی تندہی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ۔ حاجی عبد الرحمن رحمۃاللہ علیہ کا مستقل قیام مسجد مبارک میں تھا۔ان کے لیے ایک حجرہ مخصوص تھا۔مسجد کی دیکھ بھال اور صفائی کاانتظام ان کے سپردتھا۔ جب حاجی عبدالرحمن رحمۃاللہ علیہ کو فالج کا عارضہ لاحق ہوا تو حضرت ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے حاجی کی دیکھ بھال کی اور مسجد کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر حاجی عبد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ کی دیکھ بھال کے لیے ایک آدمی بھی مقرر کر دیا ۔
***************