مختصر تذکرہ ثانی لاثانی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ

مختصر تذکرہ ثانی لاثانی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ > صفحہ 3

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اعتدال کا دامن جس طرح تھامے رکھا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر کام میں اعتدال کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ کھانے پینے، سونے جاگنے، ملنے جلنے اور عبادت کرنے میں بھی کبھی اعتدال سے باہر نہ نکلتے تھے ۔ 
آپ رحمۃ اللہ علیہ نفلی عبادت کو فرض عبادت پر کبھی فوقیت نہ دیتے تھے۔ بلکہ فرض عبادت کو باقاعدگی سے وقت پر انجام دیتے اور نفلی عبادت کو اپنے معمول کے مطابق ادا فرماتے تھے۔ نماز پنجگانہ باجماعت ادا فرماتے اور اسے بہت اہمیت دیتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ امام مسجد کو نماز پڑھاتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے پیچھے بچے ، بوڑھے ، جوان ، بیمار اور تندرست ہر قسم کے آدمی کھڑے ہوں گے۔ اس لیے نماز پڑھاتے وقت قرأت وغیرہ میں میانہ روی سے کام لے ،نہ اتنی لمبی سورتیں تلاوت کرے کہ وہ تنگ پڑ جائیں اور نہ اتنی چھوٹی ہوں کہ ذرا سی تاخیر کی بنا پر لوگ جماعت کے ثواب سے محروم رہ جائیں ۔ دعا بھی مختصر مانگنی چاہئے تاکہ لوگ فارغ ہو کر اپنے اپنے کام پر جا سکیں، بیمار آرام پا سکیں اور کسی کے دل میں کسی قسم کی ناگواری کااحساس پیدا نہ ہو ۔
حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملنے جلنے میں بھی سنت نبوی ﷺ کے مطابق میانہ روی سے کام لیتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں دوسروں سے اس طرح ملناچاہیے کہ دوبارہ ملنے کی تمنا باقی رہے۔
حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ خرچ کرتے وقت بھی سنت نبوی ﷺ کے مطابق میانہ روی سے کام لیتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت سلیقے سے خرچ فرماتے ، لنگر چلاتے اور حاجت مندوں کی مدد فرماتے، شریک درس طلباء پر خرچ کرتے۔ مساجد کی مرمت کرواتے او ر نئی مساجد تعمیر کرواتے تھے مگر پیسے کو فضول خرچی میں ضائع نہ کرتے تھے بلکہ اللہ کے نام اور اللہ تعالیٰ کے کام پر خرچ کرتے تھے اور وہ بھی میانہ روی سے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی کے آخری لمحات تک میانہ روی کو اختیار کیے رکھا۔ اس لیے کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت کم ہی پیش آئی۔ یہ خوبی حضرت ثانی لاثانی رحمۃ اللہ علیہ میں جس قدر نمایاں تھی وہ بہت کم بزرگوں میں دیکھنے میں آتی ہے۔

جاہ و جلال:

جس طرح انبیاء علیہم السلام کے چہرہ مبارک سے اللہ تعالیٰ کاپیداکردہ جاہ و جلال نمایاں ہوتا ہے اسی طرح اولیاء اللہ کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کاپیداکردہ جاہ و جلال نمایاں ہوتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے حق بات کہنے پر بہت سی تکالیف اٹھائیں مگر حق بات کہنے سے نہ رُکے۔ اسی طرح اللہ کے نیک بندے حق بات کہنے سے نہیں رُکتے خواہ ان کو کتنی ہی تکالیف اٹھانی پڑیں۔
حضرت ثانی لا ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک ولی کامل تھے ۔اس لیے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ ولایت کا جاہ و جلال ان کے اندر پیدا ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے قُوْلُوْ الِلنَّاسِ حُسْنَا (بقرہ۔83) کے مطابق حق کا اظہار فرماتے تھے ۔ نیز حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاجاہ و جلال آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ہر قول و فعل سے نمایاں تھا۔ 

حق گو ئی:

ایک دفعہ پروفیسر منور حسین صاحب کا ایک عزیز جو کہ لاہور میں برف کے کئی کارخانوں کا مالک تھا اور صاحب ثروت تھا اپنی مالی پریشانیوں کا ذکر حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے بیٹھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کی بات بڑے غور اور اطمینان سے سنی۔ اس کی گفتگو کا ماحصل یہ دعا کرانا تھا کہ وہ اور زیادہ امیر بن جائے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی خواہش کو بھانپتے ہوئے سنت نبوی ﷺ کے مطابق بڑی نرمی سے اسے فرمایا ’’ انسان کو اس دنیا میں خواہ کتنا ہی پیسہ کیوں نہ مل جائے وہ کبھی سیر نہیں ہوتا‘‘ اتنا کہہ کر آپ رحمۃ اللہ علیہ خاموش ہو گئے اور اس کی مہمان نوازی کرکے اسے رخصت کردیا۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ آپ کی تلقین کااس پر اتنا اثر ہوا کہ دولت مند بننے کا لالچ اس کے ذہن سے نکل گیا۔

توکل:

حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات برکات پر ہر معاملے میں توکل کیاکرتے تھے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی سراپا توکل تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اکثرتوکل کی اہمیت پر اپنے خیالات کااظہار سنت نبوی ﷺ کی روشنی میں کیاکرتے تھے کہ توکل کا نہ ہوناایمان کی نفی ہے۔ یا یوں سمجھئے کہ جس نے ذات باری تعالیٰ پر توکل نہ کیا وہ اپنے آپ کو کتنا ہی پکا مسلمان سمجھے اس کے ایمان میں کمی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے ملنے والے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس خوبی سے بے حد متاثر ہوتے تھے اور ان کے اندر حوصلہ بڑھانے والاجذبہ پیداہو جاتا۔مشہور پنجابی شعرہے :

پلے خرچ نہ بنھدے پنچھی تے درویش
جنہاں تقویٰ ربدا اہناں رزق ہمیش

یعنی پرندے اور اللہ والے خوردو نوش کے سامان کا ذخیرہ جمع نہیں کرتے بلکہ جن کو اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے وہ کھبی بھوکے نہیں رہتے۔
ایک دفعہ کاذکر ہے کہ حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃاللہ علیہ کاباغ ڈیک نالہ کی نذرہو گیا۔ یہ باغ وسیع رقبہ پر پھیلا ہوا تھا ۔ تقریباً ہر قسم کے پھل دار درخت خوب پیداوار دے رہے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مزارعین کے ساتھ مل کر اس باغ کو لگایا تھا۔ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اس میں ایک کنواں اورچھوٹی سی جائے نماز بھی بنوائی تھی تاکہ آنے جانے والے اس کنواں سے پانی پی سکیں اور جائے نماز پرنماز بھی اداکر سکیں۔ ایک سال دریائے راوی میں سیلاب آگیا اور نالہ ڈیک میں پانی اس قدر بھر گیاکہ پانی نالہ ڈیک کے کناروں سے باہر نکل کر ہر چیز کو بہا کر لے گیا۔ نالہ ڈیک نے زمین کی کٹائی شروع کر دی جس کی وجہ سے حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا باغ اور کھیت وغیرہ کٹاؤ کی وجہ سے نالہ ڈیک کی نذر ہو گئے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بہت بڑا مالی نقصان ہواتھا۔ آپ رحمۃاللہ علیہ کے باغ کا ایک محافظ آیا اور اس نے آتے ہی رونا شروع کر دیا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ محافظ کہنے لگا : ’’حضور باغ اور زمین لاکھوں روپے کی تھی جو نالہ ڈیک کی نذر ہوگئی ہے‘‘۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ تعالیٰ کی ذات برکات پر بہت توکل تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اسے رونے سے منع فرمایااور فرمانے لگے کہ افسوس تومجھے ہونا چاہئے ، رونا تومجھے چاہئے ۔لیکن اس باغ کے لٹ جانے کا مجھے توکوئی غم نہیں۔جس ذات باری تعالیٰ نے دیا تھا اسی نے لے لیا۔ اگر مالک اپنی چیزواپس لے لے تو چیزرکھنے والے کو اس کے جانے کا رنج کیوں ہو؟ امین امانت کو لوٹا دیتا ہے، رکھتا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا۔ زندگی بسر کرنے کاکوئی دوسرا ذریعہ وہ خود پیداکر دے گا۔
ایک مرتبہ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک ہو رہاتھا کہ لنگر پکانے کے لیے آٹے کی کمی ہوگئی۔ خادموں نے حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سے آٹے کی کمی کا ذکر کیا اور فکرمندی کا اظہار کیا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سنت نبوی ﷺ کے مطابق توکل کامل تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں کیا کر سکتا ہوں؟ جس کی راہ میں لنگر بٹ رہا ہے وہ خود اس کا انتظام کر دے گا۔اس لیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ خدا تعالیٰ کی قدرت تھوڑی دیر بعد ایک ٹرک آٹے سے بھرا ہوا آگیا۔ جولوگ آٹے کو لے کر آئے تھے۔ انہوں نے آٹے کو لنگر خانہ میں ڈالنے کی اجازت طلب کی اور لیٹ آنے کی وجہ یہ بیان کی کہ راستے میں ٹرک خراب ہو گیاتھا ۔جس کی وجہ سے تاخیرہو گئی۔ آپ رحمۃاللہ علیہ خاموش رہے اور خادموں نے آٹے کو لنگر خانہ میں ڈال دیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس توکل پر سب لوگ حیران تھے اور اب ان کو پختہ یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کیاجائے تو انسان کبھی ناکام نہیں رہتا۔