مختصر تذکرہ ثانی لاثانی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ

مختصر تذکرہ ثانی لاثانی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ > صفحہ 2

عبد الرحمن کے سپرد کر دینا۔ جمعہ کی نمازکے علاوہ وقتاً فوقتاً اور نمازیں بھی پڑھانا ، جو آئے اسے اللہ اللہ بتا دیاکرنا، انشاء اللہ تمہیں کسی بات کی کمی نہیں رہے گی‘‘۔

مسند خِلافت:

جب 1928ء میں حضرت میاں شیرمحمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال ہو گیاتو بعدمیں حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی وصیت کے مطابق سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے اور سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و جانشین کے فرائض سنبھالے۔ آستانہ عالیہ شرقپور شریف کے ہزاروں عقیدت مندوں نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پر ست پر بیعت کی اور آپ رحمۃاللہ علیہ نے ان کی سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق رہنمائی فرمائی۔ جس کی وجہ سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ وہ برے کاموں کو چھوڑ کر نیکی کی طرف مائل ہوگئے۔ اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حق خلافت اداکیا۔

رسول اللہ ﷺ سے محبت:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی بھی محبت مصطفےٰ ﷺ سے لبریز تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سمجھتے تھے کہ جناب رسالت مآب ﷺ کی ذات پاک کو جملہ مخلوق پر پوراپورااختیار ہے۔اس لیے ان کی محبت ہم پر لازم ہے اور ان کا حکم تسلیم کرنا فرض ہے۔اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ دونوں چیزیں یعنی محبت اور اتباع لازم و ملزوم ہیں اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے محب کے سامنے سرجھکادے۔
حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی ذات کو اپنے محبوب کی ذات میں فنا کر رکھاتھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ حضور ﷺ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور ہمہ وقت حضور ﷺ کی خوشنودی کے طالب رہتے۔
حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر عشق محمد ﷺ کاایسا رنگ چڑھا ہواتھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت میں اخلاق محمدی ﷺ کی ہر ممکن پیروی کرتے۔

حیاء:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں بڑے بلند اخلاق اور حیادار تھے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ عورتوں سے ملاقات نہیں کرتے تھے۔ عرس شریف کے موقع پر عورتوں کو آنے سے منع فرماتے تھے ۔ عورتوں کو مردوں کی طرف جانے سے منع فرماتے تھے۔
غریبوں اور ناداروں کی مدد:
حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہمیشہ غریبوں ، محتاجوں ، بے کسوں کے ہمدرد رہے۔ بیواؤں اور ضعیفوں کی مدد فرماتے ۔ دوسروں کے لیے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں شفقت و محبت کا بے پناہ جذبہ تھا۔

مہمان نوازی :

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے مہمان نوازی کیاکرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لنگر خانے سے سینکڑوں مہمان اور مریدین لنگر کھاتے تھے۔ یہ سلسلہ صبح سے رات تک جاری رہتا۔

علماء کی قدردانی:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اہل علم، اہل قلم ، علماء و مشائخ کی بہت قدر کرتے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ صاحب اہل علم، اہل قلم ، علماء و مشائخ کی قدر کرتے اور ان کوملنے میں پہل کرتے تھے۔

ہم نشینوں سے برابری کا برتاؤ:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ملنے والوں سے محبت اور برابری کا سلوک کرتے اور ہر ایک یہی خیال کرتا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ حضرت میاں غلام اللہ صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ اپنے ہم نشینوں میں کبھی امتیاز سے نہ بیٹھتے تھے۔

حاجت روائی:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے حاجت مندوں کی حاجت پوری کرتے اور ان کو کبھی مایوس نہ کرتے تھے۔

عزیز و اقارب کی خوشی و غمی میں شرکت:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے عزیزواقارب کی خوشی و غمی میں شمولیت اختیار کرتے تھے۔
والدین اور اساتذہ کرام، بزرگوں اور بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، معاملات میں صفائی ، وعدہ کو پوراکرنااور ایک دوسرے سے حسن سلوک اورفراخ دلی سے پیش آنااور ناداروں کی امداد و اعانت کی تلقین فرماتے تھے۔حضور ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پاکیزہ زندگی میں خود بھی عبادات میں ا خلاص کے ساتھ ساتھ معاملات میں بھی ہمیشہ اخلاص سے کام لیا۔ ناداروں اور محتاجوں کی اعانت فرمائی ۔رشتہ داروں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ بھلا وہ عظیم ہستی جو سب کے لیے مرکز مہر و شفقت ہو اپنے عزیز و اقارب سے حسن سلوک کو کس طرح نظر انداز کر سکتی ہے؟
حضور ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں ا سلامی رنگ کوٹ کوٹ کر بھراہواتھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر معاملہ میں سنت رسول اللہ ﷺ کو پیش نظر رکھتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ عزیز و اقارب کی خوشی و غمی میں شمولیت اختیار کرتے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے حضور ﷺ کی سنت کے اتباع کا خیال ہوتاکیونکہ اِنَّمَا اَلْاعَمَالُ بِالْنِیَّات کا تقاضا اہل قلب و نظر کے سامنے ہمیشہ رہتا تھا۔

سیرکرنا:

حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے نماز فجر اور درود شریف کی مجلس کے بعد سیر کرتے۔ اکثر اپنی زرعی اراضی پر کھیتوں میں تشریف لے جاتے تھے۔ اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ سیر کرنے کی سنت کی ادائیگی بھی فرماتے تھے۔ فصلوں اور مویشیوں کی بھی دیکھ کرتے اورآپ کی مزارعین سے ملاقات بھی ہوجاتی تھی۔گویا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سیر ایک پنتھ دو کاج کا مرقع تھی۔

خوش خلقی:

حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃاللہ علیہ بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ شروع سے ہی خوش خلق مشہور تھے۔ نہایت بلندکردار کے مالک تھے۔جو لوگ آپ رحمۃاللہ علیہ کوملنے کے لیے آتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ان سے بے پناہ محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ جو بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہا۔ اسے یہ کہتے سناگیا کہ حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ سے بہت ہی اچھا اور محبت بھرا سلوک فرمایاہے۔

سادگی:

حضرت ثانی لاثانی رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہر معاملہ میں سادگی اور میانہ روی اختیار فرماتے تھے۔
آپ سچے عاشق رسول تھے ۔ اس لیے آپ حضور ﷺ کے احکامات کی پابندی کی پوری پوری کوشش کرتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سادگی کوایمان کا جزو سمجھتے تھے اور اسے ایک اسلامی فریضہ سمجھ کر اختیار کیے ہوئے تھے ۔حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس فریضہ کو خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔ جس کسی نے حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کودیکھا وہ جانتا ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نہایت سادہ زندگی بسرکرتے تھے ۔ لباس نہایت سادہ مگر صاف ستھرا پہنتے تھے ۔

میانہ روی:

حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں میانہ روی اختیار کرتے تھے اور متوسلین کو بھی میانہ روی سے کام لینے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔