مختصر تذکرہ ثانی لاثانی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ

مختصر تذکرہ ثانی لاثانی حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ > صفحہ 4

 

علم وفضل:

حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے اپنے برادر حقیقی اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کیا اور اتنی سرفرازی حاصل کی کہ بڑے بڑے عالم و فاضل بھی آپ رحمۃاللہ علیہ کی علمیت کے قائل تھے ۔وہ آپ رحمۃاللہ علیہ سے مختلف مسائل پرہدایت حاصل کرتے تھے ۔مولانامحمد شفیع اوکاڑی رحمۃاللہ علیہ اور مولانا محمدعمر اچھروی رحمۃاللہ علیہ اکثر آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتے اور دینی مسائل کے حل کرنے میںآپ رحمۃ اللہ علیہ کی مدد کے طلب گار ہوتے ۔
غرض یہ کہ حضرت میاں غلام اللہ شرقپوری رحمۃاللہ علیہ نہ صرف خود بہت بڑے عالم اور فاضل تھے بلکہ انہوں نے علم کی روشنی کو لوگوں تک پہنچانے کیلئے علمائے کرام تیار کیے اور ان کو ملک بھر میں پھیلا دیا۔

تحمل اور بردباری:

حضرت ثانی لانی ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں عفوو درگذر کی یہ صفت اس قدر پائی جاتی تھیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ دوسروں سے منفرد نظر آتے تھے۔ اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے انسان کو بڑے کٹھن راستہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر مصائب و تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باطل اور شیطانی قوتیں چپہ چپہ پر روڑے اٹکاتی ہیں اور اپنے عقیدے کو بچانے کی لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی نہ کوئی ایسی بات سامنے آجاتی ہے ۔جس سے تلخی پیدا ہو جاتی ہے اورانسان صبر و تحمل کا دامن چھوڑ دیتاہے۔مگر حضرت ثانی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے کبھی ایسا نہ کیا ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سنت نبوی ﷺ کے مطابق اس کٹھن راستے کو خوش مراجی اور تحمل اور بردباری سے طے کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے کبھی کسی بات پر تلخ ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہر ایک کی بات خواہ وہ کسی نظریے سے تعلق رکھتاہو بڑے تحمل سے سنتے تھے۔کسی کی شکایت پر صبر کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زمین اور باغ پر کام کرنے والے مزارعین سے اگر کسی وقت کچھ مالی نقصان بھی ہو جاتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ بڑے تحمل سے برداشت کرتے اور کبھی تلخ مزاجی نہ دکھاتے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے زیر انتظام بہت سی مساجد اور مدارس کا سلسلہ جاری تھا۔اکثر ایساہوتاتھا کہ طلباء اور اساتذہ کرام یا لنگر تیار کرنے والے اور تقسیم کرنے والے خادموں وغیرہ سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تھی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ زیادہ خفگی کااظہار نہ کرتے بلکہ تلخی کی بجائے انہیں نصیحت فرما کر معاف کر دیتے۔
حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عزیزو اقارب بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ دنیاوی اعتبار سے بہت خوشحال اور بلندمرتبہ پر تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ان عزیزوں کے بعض افعال ناپسند تھے مگر آپ رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے انہیں بھی تحمل اور بردباری سے برداشت کرتے اور انہیں دنیاکے ساتھ ساتھ دین کی پابندی کی تلقین بھی فرماتے۔
بعض لوگ اپنے گھریلو اور دنیاوی جھگڑے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے کر آتے تھے توآپ رحمۃ اللہ علیہ انہیں بھی سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے تحمل مزاجی ، باہمی عفو و درگذر اور بردباری کی تلقین فرماتے اور اس طرح ان کے جھگڑے نپٹا دیتے۔
غرضیکہ حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ خود بھی تحمل و بردباری کا نمونہ تھے اور دوسروں کو بھی ایسا ہی دیکھناپسند فرماتے تھے۔ آپ رحمۃاللہ علیہ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ اگر انسان تحمل اور بردباری سے کام لے تو دنیا کے آدھے سے زیادہ جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں۔

طب کی تعلیم:

حضرت ثانی لا ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمان نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے علم طب حاصل کیااور اس میں خوب مہارت حاصل کی اور اس طرح آپ ایک اعلیٰ درجے کے طبیب بنے، اگرچہ اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو طب روحانی کابھی ماہر حکیم بنا کر آپ کو دوہرے فرائض سونپ دیئے تھے۔

علاج بالغذا:

حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے طب کاباضابطہ مطالعہ کیا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے کم کھانا چاہئے یہ سب سے بڑی حکمت اور دانائی ہے۔اس پر خود بھی عمل کیاکرتے تھے اور اپنے ملنے والوں کو بھی اس پرعمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔

بیمار کے لیے دعاکرنا:

حضرت ثانی لاثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کے پیش نظر سائلوں کے حق میں بیماری سے شفایابی کی دعاکیاکرتے تھے ۔جو دوائیاں کھاکھا کر تنگ آچکے ہوتے تواللہ تعالیٰ اپنے فضل عمیم سے ان کو شفا عطافرماتا۔ لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ دعاکے ساتھ ساتھ دواکرنے کی بھی ہدایت فرماتے اور فرماتے کہ طبی علاج کرنا سنت ہے اور شفا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔

بیماری میں صدقہ دینا:

حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’صدقہ بلا کودور کر دیتاہے‘‘۔
حضرت ثانی لا ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے بیمار لوگوں کے لیے دعا بھی کرتے، دوا بھی تجویز فرماتے ۔ اس کے ساتھ ساتھ خیرات کثرت سے کرنے اور صدقہ دینے کی تلقین فرماتے اور فرماتے کہ صدقہ بیماری کودور کر دیتا ہے۔