حضرت پیرمیاں خلیل احمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ

لباس > صفحہ 5

 

جنازہ کی آمد:

پیرصاحبزادہ میاں خلیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی رہائش گاہ سے محض 500گز پرواقع جنازہ گاہ تک کافاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوسکا۔

نمازِجنازہ:

صاحبزادہ میاں خلیل احمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِجنازہ اداکرنے کے لیے ملک بھر کے پیرِطریقت اورسجادہ نشین حضرات صفیں باندھے موجود تھے۔اس موقع پرانتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میںآئے۔ درجنوں مرید شدت غم سے نڈھال پڑے تھے تودرجنوں ہی دھاڑیں مارمارکررورہے تھے۔ نمازِجنازہ آپ کے صاحبزادہ حافظ میاں ولیداحمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی نے بروزجمعۃ المبارک 6۔ جنوری 2012 ؁ء کو نمازِجمعہ کے بعد3بجے کی بجائے تقریبًا4بجکر30منٹ پراس جگہ پڑھائی جہاں پراعلیٰ حضرت شیرِربّانی میاں شیرمحمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ اورحضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کے عراس ہرسال انقعاد پذیر ہوتے ہیں۔

بڑاجنازہ:

صاحبزادہ میاں خلیل احمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کا ضلع شیخوپورہ کی تاریخ کاسَب سے بڑااورتاریخ سازجنازہ تھا۔شرقپورشریف کی تاریخ میں عوام کی شرکت کے لحاظ سے اتنابڑا جنازہ آج تک نہ ہوا تھا۔ آپ کے جنازہ میں بیرونِ اوراندرونِ پاکستان سے ہزاروں مریدین اورعقیدت مندوں نے شرکت فرمائی۔عقیدت مندوں کاٹھاٹھیں مارتاہواسمندر قطاریں بناکر جنازہ کا انتظارکرتارہا۔آپ کی نمازِجنازہ میں ملک کے طول و عرض سے مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے جیّد علماء کرام کی کثیر تعداد ،سیاسی وسماجی شخصیات اور ہزاروں مریدین اور عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ نمازِجنازہ میں رقت آمیز مناظردیکھنے میںآئے تھے۔اس موقع پرعقیدت مند دھاڑیں مارمارکرروتے رہے۔ آپ کے نمازِجنازہ میں علامہ محمدمنشاء تابش صاحب قصوری چشتی سیالوی، علامہ راغب حسین نعیمی صاحب ،علامہ عبداستار سعیدی صاحب، جسٹس (ر) منیرمغل صاحب، جسٹس (ر) نذیراحمدصاحب غازی ،پیرعظمت علی شاہ صاحب آف کیلیانوالہ شریف، پیرطیّب علی شاہ صاحب کرمانوالہ شریف، پیرسیّدمحفوظ صاحب مشہدی،پیر خادم حسین صاحب شرقپوری،علامہ شاہدصاحب گردیزی،سیّدعابد صاحب گردیزی ،قاضی عبدالغفار صاحب،سردار محمدخاں صاحب لغاری،علامہ آغا ابوبکرجان صاحب،پیرعثمان نُوری صاحب،قاری غلام رسُول صاحب ،عبدالستار عاصم صاحب،صدرتحریکِ تکمیل پاکستان یعقوب ضیاء صاحب،نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشیدصاحب نے شرکت فرمائی۔
ایک اندازہ کے مطابق آپ کے نمازِجنازہ میں تقریبًا ڈیڑھ سے دو لاکھ لوگوں نے شرکت فرمائی۔ اس جنازے میں ایسے لوگ بھی دیکھے گئے جِن کوپہلے کبھی شرقپورشریف میں نہیں دیکھاگیا ۔

گاڑیاں:

گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ پورے شرقپورمیں گاڑی کھڑی کرنے کے لیے جگہ نہیں مِل رہی تھی۔راقم کے بیٹے کوگاڑی ایک چھ فٹ گہرے گڑھامیں کھڑی کرنی پڑی۔ بڑے اڈا سے لے کر سکھانوالہ بنگلہ تک سڑکے کے دونوں طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں جن کاشمارکرناناممکن تھا۔ شرقپورشریف کے اِردگِردپانچ کلومیٹرتک کے علاقے میں گاڑیاں پارک تھیں۔

بارانِ رحمت:

نمازِجنازہ سے پہلے آسمان پرگہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ایسامحسوس ہورہاتھا جیسے بارانِ رحمت ایک ولیِ کامِل کے جنازہ کاانتظارکررہی تھی۔ یُونہی جنازہ اٹھایاگیابارانِ رحمت شروع ہوگئی ۔ ہلکی ہلکی بارش ہوتی رہی۔یہ ہے اللہ والوں کی شان۔ بادل بھی سایہ فگن ہوتے ہیں اوربارانِ رحمت بھی اپناحصہ ڈالتی ہے۔ سب لوگوں نے اسے رحمتِ خُداوندی کانزول سمجھااورآپ کی کرامت تصّورکیاکیونکہ اس سے پیشترمطلع بالکل صاف تھا۔ کئی ماہ تک بادِل کانام و نشان تک بھی آسمان پرنظر نہیںآتاتھالیکن نمازِجنازہ کے وقت بارش تھم گئی۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش نے لوگوں کونمازِجنازہ پڑھنے کاوقت دیااوراگربارش ہوتی رہتی تولوگوں کونمازِجنازہ ادا کرنے میں مشکل پیش آتی۔نمازِجنازہ کے بعد پھر ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی۔
اللہ کے بندوں کے جنازوں پراسی طرح بارانِ رحمت ہوتی ہے۔جب اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد صاحب شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کا جنازہ جنازگاہ میں پہنچاتھاتواچانک ایک طرف سے ٹھنڈی ہوا چلی۔بادِل اٹھا۔ آپ کے جنازہ پرموسلادھار مینہ برسا۔ سب لوگوں نے اسے رحمتِ خُداوندی کانزول سمجھااورآپ کی کرامت تصّورکیاکیونکہ اس سے پیشترمطلع بالکل صاف تھا۔ کئی ماہ تک بادِل کانام تک بھی آسمان پرنظر نہیںآتاتھا۔ انسان،حیوان اورپرند مارے شدتِ گرما کے نیم جان ہوچکے تھے ۔

تدفین:

صاحبزادہ میاں خلیل احمدصاحب شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ کو بروزجمعۃ المبارک11۔صفرالمظفر1433 ؁ھ بمطابق6۔جنوری2012 ؁ء کواُس جگہ سپردِخاک کیاگیاجہاں ہر سال حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری نقشبندی
مجددی رحمۃ اللہ علیہ کاعرس مبارک منایا جاتاہے اورآپ کی قبرمبارک حضرت شیرِربّانی رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت ثانی لاثانی رحمۃاللہ علیہ اور حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے روضہ مبارک کے سامنے ہے۔ آخری ایام میں آپ نے تنہائی اختیارکرلی تھی اورٹھٹھی سیالاں میں رہنا شروع کر دیاتھا۔ وہیںآپ کاانتقال ہوا۔جوچیز(تنہائی)آپ نے ظاہری زندگی میں پسندفرمائی تھی ،حقیقی زندگی میں بھی وہی پسندفرمائی۔