مجددِ عصر، قطبِ زمانہ، عاشقِ صادق، شیرِ ربَّانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کی خوشخبری آپ کے جدِّ اعلیٰ کو کابل کے ایک بزرگ نے آپ کی پیدائش سے ایک صدی پہلے ہی دے دی تھی اور آپ کا نام بھی تجویز کر دیا تھا۔ جب حضرت قبلہ مولانا غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ نے شرقپور کو اپنا مسکن بنایا تو امیرِ طریقت حضرت بابا امیرالدین رحمۃ اللہ علیہ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش سے بہت عرصہ پہلے شرقپور میں تشریف لایاکرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے کشف سے بتایا ہے کہ اس بستی میں ایک ’’شیر خدا‘‘ پیدا ہو گا۔ چناچہ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہر سال شرق پور میں تشریف لاتے اور وطنِ محبوب کی زیارت کرتے۔ سکونِ قلب حاصل کرنے کے بعد واپس کوٹلہ شریف تشریف لے جاتے۔ حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کا یہ سلسلہ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش تک جاری رہا ۔
روایت ہے کہ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت سے کئی سال پہلے ایک مجذوب بھی حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جائے پیدائش کے گِرد چکر لگایا کرتے تھے۔ انہوں نے لوگوں کے اصرار پر بتایا کہ اس محلہ میں ایک مقبول بارگاہِ رب العلیٰ پیدا ہو گا۔ مَیں اُس کی بوئے مست سے اپنے روح کو مسرور اور دِل و دماغ کو تازہ کرتا ہوں ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار ان خوش بخت انسانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے عمر بھر نیکیاں کمائیں۔ امرباالمعروف و نہی عن المنکرکے راستے پر گامزن رہے۔ دینِ حق کی تبلیغ و تاکید کو شعار بنائے رکھا۔ خلقِ خدا کو حکم خدا وندی اور اسؤہ رسولِ کریمﷺ سے اپنی حیاتِ مستعار کو سنوارنے اور سجانے کی عمر بھر تلقین فرماتے رہے۔ آپ نے اپنے علم و فضل، عزم و عمل اور خلوص و شفقت کے لاکھوں انمٹ نقوش چھوڑے ۔
پیکرِ زہد و تقویٰ، قافلہ سالار اہلِ وفا و رضا حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ با سعادت 1282 ہجری میں شرق پور میں ہوئی۔ آپ حضرت میاں عزیزالدین رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام آپ کے آباؤ اجداد نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسبت سے ’’عائشہ ‘‘رکھا۔ اس سے آپ کے آباؤ اجداد کا حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرہ سے محبت اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ مائی عائشہ صاحبہ میاں بدرالدین صاحب قصوری رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی تھیں۔ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کا سنت کے مطابق پیدائش کے ساتویں روز نام ’’شیر محمد‘‘ رکھا گیا۔ آپ کی ابتدائی عمر میں ہی آثار بزرگی آپ کی طبیعت سے ہویدا ہونے لگے تھے۔ آپ کا بچپن مبارک حضور پُر نور شافی یوم النشور حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی اتباع سے شروع ہُوا۔ آپ نہ تو بچوں کے ساتھ کھیلتے اور نہ ہی اُن کے ساتھ نشست و برخاست رکھتے تھے۔ آپ کو جب مکتب میں بٹھایا گیا تو آپ کی طبیعت بچوں سے مناسبت نہ پکڑتی تھی۔ آپ شرم و حیا کے بے مثل پیکر تھے۔ آپ کو کھیل کود اور لہو و لہب سے بچپن ہی سے نفرت تھی۔ آپ کو سب سے پہلے قرآن پاک کی تعلیم کے لئے مدرسہ بھیجا گیا۔ آپ پر عشق الٰہی کا رنگ بچپن ہی سے غالب تھا۔ آپ کے جدِ امجد مولانا غلام رسول رحمۃ اللہ علیہ جو پارہ قرآن پاک آپ کو برائے تعلیم دیتے تو آپ عشق الٰہی میں روتے روتے اسے آنسوؤں سے بھگو دیتے۔ آپ کے جد امجد جب آپ سے رونے کی وجہ دریافت فرماتے تو آپ خاموش رہتے اور رونے کا کوئی سبب نہ بتاتے۔ آپ کو قرآن پاک پڑھنے کے بعد مڈل سکول شرق پور میں داخل کروایا گیا لیکن آپ کا سکول کی تعلیم میں دِل نہیں لگتا تھا۔ آپ نے والد صاحب کے اصرار پر پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ آپ تعلیم کی نسبت خوشنویسی میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ آپ نے اس فن میں اس قدر مشق کی کہ بڑے بڑے خوشنویس آپ کے لکھے ہوئے قطعات دیکھ کر ششدر رہ جاتے۔ آپ قرآن پاک کے بوسیدہ اوراق کو اپنے قلم سے مکمل فرماتے اور اپنے دِل کو یادِ الٰہی سے شادو آباد رکھتے۔ آپ پر بعض اوقات وجد طاری ہو جاتا اور کئی کئی گھنٹے ہوش میں نہ آتے۔ جب آپ مدرسے میں پڑھتے تھے تو چُھٹی کے وقت دوسرے بچے کھیل کود میں مصروف ہو جاتے لیکن آپ اپنی خدا داد تربیت کے تحت گوشہ تنہائی یا مسجد میں چلے جاتے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں محو ہو جاتے۔ آپ اکثر قبرستان چلے جاتے اور وہاں ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔ آپ کی عمر جیسے جیسے بڑھی آپ ذکرو اذکار اور عبادت کی طرف زیادہ راغب ہوتے چلے گئے۔ آپ قبرستان میں جاکر اکثر پرانی اور پھٹی ہوئی قبروں میں پڑے رہتے اور رو رو کر کہتے اے اللہ! ’’یا تو مجھے دین حق عطا کردے یا یہیں موت دے دے‘‘ ۔
تذکرہ نگاروں نے آپ کے حلیہ مبارک کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کا رنگ سرخ و سفید تھا۔ قد درمیانہ، نازک اندام اور آنکھیں موٹی تھیں جو ہمیشہ غمناک رہتی تھیں۔ ہونٹ پتلے تھے۔ آپ سنت مطہرہ کے مطابق قبضہ بھر داڑھی رکھتے تھے۔ مونچھیں ترشواتے۔ آپ کی داڑھی مبارک گھنی تھی جِس میں کوئی کوئی بال سفید تھا۔ آپ کے سر کے بال گھنگھریالے تھے جن کو آپ سنت مطہرہ کے مطابق کانوں کی لو تک لمبے رکھتے تھے۔ گویا آپ کے نقوش بڑے خوبصورت تھے جن سے بزرگی، متانت اور نورانیت ہویدا ہوتی تھی ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضور ﷺ کی سنت مطہر ہ پر عمل کرتے ہوئے زندگی بھر ٹوپی اور عمامہ شریف دونوں اکٹھے استعمال کئے۔ آپ سنت کے مطابق سفید رنگ کا لمبی آستینوں والا کُرتا اور تہبند استعمال کرتے تھے۔ سنت کی پیروی کرتے ہوئے سرخ یا پیلے رنگ کا دیسی جوتا عموماً قصوری جوتا پہنتے تھے۔ سنت کی ادائیگی کے لئے موزوں کو بھی استعمال کر لیتے تھے۔ آپ ہمیشہ دو کُرتے پہنتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ بھی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ آپ کو سیاہ لباس اور سیاہ جوتے اور انگریزی لباس سے سخت نفرت تھی۔ سوتے وقت صف کا بچھونا یا سر کی کا بچھونا بنا لیتے اور اینٹ کا تکیہ بنا کر سو جاتے۔ آپ کے لباس او ر رہن سہن سے سادگی ٹپکتی تھی اور سنت نبوی ﷺ کا اظہار ہوتا تھا ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ سنت کے مطابق نہ صرف کھانا بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر شروع کرتے بلکہ ہر لقمے کو بِسْمِ اللہ پڑھ کر لیتے، کھانا آہستہ آہستہ اور چبا کر کھاتے، کھانا دائیں ہاتھ سے کھاتے۔ کھانا دسترخوان پر اکٹھے بیٹھ کر کھاتے، کھانا کھاتے وقت سنت کے مطابق یک زانوبیٹھتے، روٹی کے گِرے ہوئے ٹکڑے اٹھا کر کھا لیتے، کھانا بہت کم کھاتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے تھوڑا سا کھا کر قناعت کی جائے تو وقت گزر جاتا ہے، کھانا کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ کر اچھی طرح صاف کرتے، کھانے کے بعد برتن کو انگلیوں کے ساتھ اچھی طرح صاف کرتے اور برتن اس طرح صاف کرتے جیسے برتن کو دھو کر رکھا ہو، کھانے کے بعد کلی بھی کرتے اور آپ دستر خوان سے اس وقت تک نہ اُٹھتے جب تک سب لوگ کھانا کھا کر فارغ نہ ہو جاتے ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ نماز پنجگانہ بڑے اہتمام سے ادا فرماتے اور امامت بھی خود کرتے۔ نماز باجماعت کو ترجیح دیتے اور خطبہ جمعہ خود فرماتے۔ لوگوں کو دین متین پر نہ صرف عمل کرنے کی تلقین فرماتے بلکہ سختی سے اس پر عمل بھی کرواتے تھے۔ آپ نے دینیات اور تصوف کی بعض نادرو نایاب کتب بھی طبع کروا کر تقسیم کیں تاکہ جو لوگ کِسی وجہ سے آپ کی صحبت سے فیض یاب نہ ہو سکیں وہ مسائلِ دین سے آگاہ ہوتے رہیں۔ آپ نے ’’مراۃ المحققین‘‘ ’’اُردو ترجمہ‘‘ کے ساتھ عمدہ کاغذ پر چھپوا کر عوام الناس میں مفت تقسیم کی۔ ’’ذخیرۃ الملوک ترجمہ منہاج الملوک‘‘ کا اُردو ترجمہ کروایا اور تین سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب مفت تقسیم کی۔ ’’حکایت الصالحین ترجمہ مجالس المحسنین‘‘جیسی آٹھ سو بیاسی صفحے کی بڑی کتاب حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں زیورِ طبع سے آراستہ ہوئی اور احباب میں تقسیم کی گئی ’’چشمہ فیض‘‘ پنجابی زبان کا یہ مختصر سا رسالہ جو امیر طریقت حضرت بابا امیرالدین رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے طبع کروا کر تقسیم کیا۔ ان کتابوں کے علاوہ تفسیر، سیرت رسول مقبول ﷺ اور ارادو لطائف، فقہ اور احادیث کی متعدد کتب بازار سے خرید کر طالبان حق میں بانٹتے اور لوگوں کو علمی ذخائر سے مالامال کرتے ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ مہمان نوازی اور غریب پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ مہمان نوازی اور غریب پروری کے لیے آپ کو بازار سے اکثر سودا ادھار تک لینا پڑتا۔ چنانچہ آپ کے والد بزرگوار رہتک سے جب ملازمت سے رخصت پر گھر تشریف لاتے تو انہیں یہ ادھار چکانا پڑتا آپ کے والد بزرگوار کو ملازمت کے دوران ایک نقاب پوش نے آپ کے بیٹے حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت و شان سے برسرِ راہ بعد از نماز تہجد ان کا راستہ روک کر آگاہ کر دیا تھا۔ جب وہ ایک دفعہ گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی سرکاری ڈیوٹی پر بغرض دورہ جارہے تھے۔ پس اس واقعہ کے بعد آپ کے والد بزرگوار آپ کی طرف سے مطمئن ہو گئے تھے ۔
آپ کا خدا وند قدوس پر اس قدر توکل تھا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ہماری مسجد اوپر اور نیچے سے مہمانوں سے بھر جائے اور ہمارے پاس ایک پیسہ بھی ان کو کھانا کھلانے کے لیے موجود نہ ہو تو ہمیں اس بات کی فکر نہ ہو گی کہ اب کھانا کھلانے کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے اور کہاں سے ان آنے والوں کے کھانے پینے کا انتظام ہو گا۔ سب کچھ اللہ پاک محض اپنے فضل سے کر دے گا اور لوگ دیکھتے ہی رہ جائیں گے ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ جمعتہ المبارک کو سیّد الایام تسلیم کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ جمعۃ المبارک کی نماز پورے اہتمام سے ادا کرنی چاہیے۔ حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نماز جمعہ کی تیاری غیر معمولی انداز میں کیا کرتے تھے جِس میں آپ کے معتقدین بھی بڑے اہتمام سے دور دور سے آکر شرکت کرتے اور آپ کے مواعظِ حسنہ سے فیضیاب ہوتے اور آپ کے پیچھے جمعہ ادا کرنے کی سعادت حاصِل کرتے ۔
حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ اکثر قبرستان جاتے اور قبور کی زیارت فرماتے۔ کبھی بیٹھ کر اور کبھی کھڑے ہو کر دعا مغفرت فرماتے۔ آپ مزارات پر بھی حاضری دیتے۔ حضرت داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ایشاں رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات پر اکثر حاضری دیتے۔ حضرت شاہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت ایشاں رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات کے قرب میں آپ کی چلہ گاہیں بھی بنی ہوئی ہیں۔ آپ مزارات پر حاضری دیتے آپ نہ تو مزارات کو ہاتھ لگاتے اور نہ ہی چومتے بلکہ آپ چار فٹ کے فاصلے پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر دعائے مغفرت فرماتے ۔
تفقہ فی الدین میں آپ کا مرتبہ اعلیٰ تھا۔ آپ دین کی روح اور مذہب کے تقدس کا ہر وقت خیال رکھتے اور آدابِ شریعت میں آپ کو یدِ طولیٰ کے حامل تھے، اس کے باوجود آپ کو ایک مرشد کامِل کی تلاش تھی۔ آپ کی نظرِ انتخاب نے قطب العارفین حضرت خواجہ بابا امیرالدین رحمۃ اللہ علیہ آف کوٹلہ شریف کو چنا۔ آپ نے بیعت ہونے کے بارے میں کہا کہ ’’میں مراد بھی ہوں اورمرید بھی‘‘ یعنی چاہنے والا بھی اور چاہا بھی گیا ہوں۔ حضرت خواجہ امیرالدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا تعلق میاں شیر محمد سے اس طرح کا ہے جِس طرح حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کا حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہے۔ آپ اپنے پیرو مرشد کا بے حد ادب و احترام کیا کرتے تھے۔
حضرت خواجہ امیرالدین رحمۃ اللہ علیہ نے جب آپ کو معراجِ کمال پر دیکھا تو خلافت عطا فرما دی۔ آپ نے فرمایا ’’قیامت کا دن ہو گا۔ مولا عزوجل مجھ سے پوچھیں گے اے امیرالدین !تجھے دنیا میں بھیجا تھا وہاں کیا کچھ کیا اور آخرت کے لئے کیا لائے ہو؟ تو میں اللہ تعالیٰ کو جواب دونگا۔ میرے آقا! دنیا میں غفلت ہی رہی، کچھ نہ کر سکا۔ صرف ایک کمائی کی ہے اور میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہاتھ پکڑ کر مالک ذوالجلال کے حضور پیش کر دونگا اور کہوں گا کہ اے اِلہٰ العالمین اس بچڑے (لڑکے) کی طفیل مجھے بخش دے۔
آپ کا وصال مبارک 3 ربیع الاول 1347 ہجری بمطابق 20 اگست 1928 ء بعمر 65 سال شرقپور شریف میں ہُوا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو ڈوہرانوالہ قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ وہیں آپ کا مزار مبارک زیارت گاہ عام ہے۔ آپ کا عرس مبارک ہر سال 3ربیع الاول کو شرقپور شریف میں منایا جاتا ہے اور ہزاروں عقیدت مند عرس میں شرکت فرما کر آپ کے فیض سے فیضیاب ہوتے ہیں۔