حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ

علمی مجالس کااہتمام > صفحہ 1

 

بزرگانِ دین کی زندگی ستاروں کی ضوکی طرح ہوتی ہے کہ جوراہ گیربھی اس روش سے بہرہ مندہواس کی زندگی منورہوجاتی ہے۔ ہدایت کے یہ ستارے نجوم کیے گئے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ روشنی کااحسا س قوی رہے اور سچائی تلاش کرنے کی لگن باقی رہے۔ اسی لیے ارشادات، ملفوظات اورمکتوبات کواہمیت حاصل ہے۔ ان بزرگوں کی زندگیاں نہ صرف یہ کہ عقیدت کے مرکز ہوتی ہیں بلکہ صراطِ مستقیم پرقائم رہنے کے وسیلے بھی ہوتی ہیں۔ سعادت مندہوتے ہیں۔ وہ لوگ جوروشنی کی ان کرنوں سے براہِ راست مستفیدہوتے ہیں اورکرم بالائے کرم ان افراد کامقدر ہے جو ان کرنوں کو عوام تک پہنچانے کاذریعہ بنتے ہیں۔ 

جب آپ ایک پیرِ طریقت کی حیثیت سے سامنے آئے تو ان کے اردگرد مریدوں کاایک وسیع حلقہ جمع رہتاجوبیعت کرتے ۔ ان کی اصلاح کرتے۔جب آپ اپنے کمرے میں تشریف فرماہوتے۔ ان کے اردگرد علماء، شعراء اوراہل علم کاحلقہ ہوتااوربعض اوقات مریدین باصفاکاہجوم رہتا۔ قائم کرنے لگے۔ ان مجالس میں علمائے کرام ، مریدین باصفااوران کے احباب آنے لگے۔ اس عرصے میںآپ عملی زندگی کی طرف آگے بڑھے۔ یوم مجددرحمۃاللہ علیہ منانے کااہتمام کرنے لگے۔ لاہورکے علاوہ پاکستان کے تمام شہروں میںیوم مجدد رحمۃ اللہ علیہ مناکر تعلیمات مجددیہ کوعوام وخواص تک پہنچانے لگے۔ یہ ان کی روحانی اورمجلسی زندگی سے ہٹ کر عملی زندگی کادورتھا۔ آپ یوم مجددرحمۃ اللہ علیہ پربڑے بڑے اشتہارات چھپواتے، انہیں دیواروں ، مسجدوں اورخانقاہوں پرلگواتے۔ جس سے لوگوں کے اندر حضرت مجددالف ثانی رحمۃاللہ علیہ کے کمالات کی تحریک پیداہوئی۔ ہرسال ملک بھرمیں متعددمقامات پر ’’یوم مجدد‘‘کے انعقادکے علاوہ، آپ نے اشاعتی سرگرمیوں میں بھی بھرپورحصہ لیا۔ چنانچہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی اشاعت کے لیے شرقپورشریف سے آپ نے اپناادارہ ’’دارالمبلغین‘‘سے ماہنامہ ’’نوراسلام‘‘کااجراء کیا۔جو بحمداللہ تقریباً60سال سے زائد عرصہ سے بلاتعطل افق مجدیت پراپنی کرنیں بکھیررہا ہے ۔سجادہ نشینوں، پیرزادوں اورصاحبزادوں میں حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری علیہ الرحمۃ واحدعلم پرور انسان تھے۔ جن کی مجالس میں مَیں نے اکثراہل علم وفضل جمع ہوتے تھے۔ وہ بعض اوقات علمائے کرام کودعوت دیتے اورعلمی گفتگوکرنے کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری علیہ الرحمۃملک کے دانشوروں جن میں پروفیسرصاحبان ، کتاب شناس ، علمی سکالرز،حتٰی کہ کتاب دوست حضرات شامل ہوتے، کوجمع کرتے اوران سے علمی باتیں کرتے۔

ایک زمانہ آیاکہ صاحبزادہ صاحب شرقپوری علیہ الرحمۃنے ’’حوزہ نقشبندیہ‘‘قائم کیاجس کے اراکین میں بہت سے ارباب دانش وبینش خصوصاًمجددی اہل قلم شامل ہوتے۔۔۔علمی دنیامیںیہ نہایت ہی منفرد حلقہ تھاجس میں مختلف اہل قلم حاضرہوتے تھے اوراپنے خیالات کااظہارکرتے تھے۔ اگرکسی ملک سے کوئی مجددی اسکالریانقشبندی سلسلے پرکام کرنے والادانشورآتاتوان کے اعزازمیں حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری علیہ الرحمۃ ’’حوزہ نقشبندیہ ‘‘کی طرف سے دعوت کاانتظام کرتے تھے۔ اہل علم کو دعوت دیتے اوراس اسکالرکی علمی باتیں سنانے کااہتمام کرتے تھے۔

مدینہ منورمیںآپ نے ’’ رباط شیر ربانی‘‘ قائم کی جس میں علمی مجالس کااہتمام کرتے، جن میں بڑی بڑی بزرگ ہستیاں تشریف لاتیں۔ آپ اُن کی بہت خدمت کیا کرتے تھے۔اُن میں سے چندایک کے نام یہ ہیں:

حضرت سید محفوظ الحسن شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ آف مکان شریف

حضرت غزالی زماں حضرت سعید احمد کاظمی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ملتان شریف

حضرت میاں نور جہانیاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ آف چشتیاں شریف

سیدی حضرت مولانا فضل الرحمن مدنی ابنِ قطب مدینہ ضیاء بن مدنی آف مدینہ شریف

مفتی اعظم شام حضرت علی مراد شامی رحمۃ اللہ علیہ آف دمشق

حضرت ہاشم جان مجددی رحمۃ اللہ علیہ آف افغانستان

حضرت مالکی صاحب آف مکہ شریف

سید تمر مہدی رحمۃ اللہ علیہ آف مدینہ طیبہ بہت بڑے مرددرویش قلندر تھے۔

حضرت بابا جی خان محمد صاحب آف مدینہ طیبہ
10۔
حضرت صوفی حسین حلمی آشک نقشبندی استنبول ترکی
حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمہ اللہ تعالیٰ کو اولیاء اللہ سے اوررسول کریم ﷺ سے والہانہ عقیدت و محبت اورعشق تھا۔ایک طویل عرصہ تک آپ دیارنبی ﷺمیں رہے اورصرف ا عراس کے مواقع پر پاکستان تشریف لاتے اوراعراس کی تقریبات منانے کے بعد واپس مدینہ منورہ تشریف لے جاتے اوریہ سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہا۔ اس میں روزانہ حضور نبی کریم ﷺ کی محفل نعت کااہتمام کیا جاتا، جس میں قراء نعت خوان اورعلمائے کرام اوررسول کریم ﷺ سے محبت کرنے والے لوگ شامل ہوتے۔ رباط شیرربانی میں لنگر کاسلسلہ صبح وشام جاری رہتا۔سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے آپ خودمہمانوں کے قیام وطعام کااپنے ہاتھوں سے انتظام کرتے تھے۔