نور اسلام - دسمبر -2018

محبوب خدا ﷺ کے جسم اطہر کی نظافت اور لطافت > صفحہ 1

 

حافظ شاہد رشید نقشبندی 

اللہ کریم جل جلالہ نے اپنے پیارے حبیب رحمت دوعالم جانِ کائنات ﷺ کی تخلیق ایسی فرمائی کہ سرکارِ دوعالم ﷺ اطیب الطیبین اور اطہر الطاہرین قرار پائے اور تمام اولیاء واقطاب اور اغیاث کی روحانیت سے ہمارے آقا ومولیٰ ﷺ کا جسم اطہر ستر(۷۰)گنا لطیف تر ہے۔ اسی لیے فقہا کرام مجتہدین عظام رحمتہ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے نبی اکرم نورِ مجسم شفیع معظم ﷺ کے فضلات مبارکہ کو بھی طیب وطاہر قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس تحریر میں ہم نبی اکرم نورِ مجسم ﷺ کے فضلات مبارکہ کے طیب وطاہر ہونے کے متعلق چند ایک واقعات قارئین کی نذرکرتے ہیں اور آئندہ تحریر میں فقہا کرام مجتہدین عظام کے فتاوٰی جات پیش کریں گے۔ وما توفیقی الّا باللہ۔
(1) امام علی بن سلطان المعروف ملاعلی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا قول مبارک تحریر کیا ہے کہ ایک دن میں نے دیکھا رسول اکرم ﷺ رفع حاجت کے لئے دور تشریف لے گئے اور جب واپس تشریف لائے تو میں اس جگہ پہنچا اور دیکھا کہ وہاں سوائے تین پتھروں (ڈھیلوں) کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔
فاخذ تھنّ فاذًا بھنّ یفوح منھنّ روائح المسک فکنت اذا جئت یوم الجمعۃ المسجد اخذ تھنّ فی کمّی فتغلب رائحتھنّ روائح من تطیّب وتعطّر۔
یعنی میں نے ان تینوں ڈھیلوں کو اٹھالیا تو ان سے کستوری جیسی خوشبو مہک رہی تھی میں ان کو گھر لے آیا اور جب جمعہ کا دن آتا تو میں ان کو اپنی آستیں میں رکھ کر مسجد میں آتا اور ان سے ایسی پیاری خوشبو مہکتی کہ وہ خوشبو ہرکسی کی خوشبو اور عطر پر غالب آجاتی۔ 

شرح شفاء جلد۱صفحہ۱۷۰ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
مدارج النبوت جلد ۱ صفحہ۸۴ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
شرح زرقانی علی المواہب جلد ۵ صفحہ ۵۴۲ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
قارئین کرام: یہ کوئی اتفاقی امر نہیں تھاکہ ایک مرتبہ ایسا ہوگیا یاصحابی رضی اللہ عنہ نے ویسے ہی عقیدت سے بیان کردیا بلکہ یہ قانونِ قدرت ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے زمین پر فرض کردیا تھاکہ جب بھی میرے حبیب ﷺ رفع حاجت کریں تو فوراً فضلہ مبارک کو نگل جائے چنانچہ مندرجہ ذیل روایت اسی پر دلیل ہے۔ 
(2) امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے ’’الافراد‘‘ میں کہا کہ ہم سے محمدبن سلیمان باہلی رضی اللہ عنہ نے ان سے محمدبن حسان اموی رضی اللہ عنہ نے ان سے عبدہ بن سلیمان رضی اللہ عنہ نے ان سے ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ بیت الخلاء میں داخل ہوئے پھر آپ کے بعد میں گئی تو میں نے خارج ہونے والی چیز(برازمبارک) کا کوئی نشان تک نہ دیکھا؟ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ عنہا تم نہیں جانتی؟ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دے رکھا ہے کہ انبیاء کرام علیھم السلام سے جو فضلہ خارج ہو وہ اسے نگل جائے۔ 

امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سند کے اعتبار سے یہ حدیث اقویٰ ہے۔ ابن دحیہ رحمتہ اللہ علیہ نے ’’الخصائص‘‘ میں اس سند کو لانے کے بعد فرمایا۔ ھذا سند’‘ ثابت’‘۔یہ سند ثابت ہے محمدبن حسان بغدادی رحمتہ اللہ علیہ ثقہ اور صالح شخص ہیں اور عبدہ رحمتہ اللہ علیہ شیخین (بخاری ومسلم) کے راویوں میں سے ہیں۔ حجۃ اللہ علی العالمین جلد ۲ صفحہ ۴۰۳ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور
الخصائص الکبریٰ جلد۱ صفحہ۲۰۱،۲۰۲ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور ۔ 
شرح شفاء جلد۱ صفحہ ۱۶۸ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور ۔
شرح زرقانی علی المواہب جلد ۵ صفحہ ۵۴۴ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
مدارج النبوت جلد ۱ صفحہ ۸۴ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور 
دلائل النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۴۴۳ رقم الحدیث ۳۶۴ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور

علامہ قاضی عیاض مالکی رحمتہ اللہ علیہ نے الشفاء شریف میں لکھا کہ حضور ﷺ کے شمائل واخبار میں بعض محدثین نے بیان کیا کہ جب حضور ﷺ رفع حاجت کا ارادہ فرماتے تو زمین شق ہوکر آپ ﷺ کا بول وبراز نگل جاتی اور وہاں صرف عمدہ قسم کی خوشبو ہی خوشبو معلوم ہوتی تھی۔
الشفاء جلد ۱ صفحہ ۶۵وحیدی کتب خانہ پشاور
شرح زرقانی علی المواہب جلد ۵ صفحہ ۵۴۰ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور۔
مدارج النبوت جلد۱ صفحہ ۸۴ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
(3) نبی اکرم نور مجسم ﷺ کی خدمت اقدس میں دوخواتین تھیں اور دونوں کا نام برکت تھا ایک برکت ام ایمنؓ اور دوسری برکت ام یوسفؓ تھیں۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا سرکار دوعالم ﷺ کی خادمہ تھیں اور امِ یوسف رضی اللہ عنہا ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں ام ایمن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سید دوعالم ﷺ کی چارپائی مبارک کے نیچے ایک پیالہ رکھا ہوتا تھا ایک دن نبی رحمت ﷺ نے اس میں بول مبارک کیا میں رات کو اٹھی اور مجھے پیاس لگ رہی تھی میں نے وہ پیالہ اٹھایا اور پی لیا ۔جب صبح ہوئی تو حبیب خدا ﷺ نے فرمایا اے ام ایمن اس پیالے میں جو کچھ ہے اسے زمین پر ڈال دو۔ میں نے عرض کی۔ واللہ لقد شربت مافیھا فضحک رسول اللہ ﷺ حتیٰ بدت نواجذہ ثمّ قالا یجفر بطنک بغدۃ ابداً وفی لفظٍ لاتلج النّار وبطنک ، وفی اٗخریٰ لا تشتکیی بطنک۔ 
یارسول اللہ ﷺ جو کچھ اس پیالہ میں تھا میں نے وہ پی لیا ہے یہ سن کر سید الکونین ﷺ ہنسے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی داڑھ مبارکہ ظاہر ہوئیں۔ (بجائے اس کے کہ حضور ﷺ ام ایمن سے ناراض ہوتے یا منہ دھونے کا حکم دیتے) بلکہ فرمایا اے ام ایمن آئندہ تمہیں کبھی پیٹ کا درد لاحق نہ ہوگا اور تیرا پیٹ کبھی بھی دوزخ میں نہ جائیگا۔ 
سیرت حلبیہ جلد ۲ صفحہ ۳۱۹ باب ذکر مغازیہ ﷺ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔
دلائل النبوۃ ابونعیم جلد ۲ صفحہ ۴۴۴ رقم الحدیث ۳۶۵ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
شرح زرقانی علی المواہب جلد۵ صفحہ ۵۴۸ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
مجمع الزوائد جلد ۸ صفحہ ۳۴۷ رقم الحدیث ۱۴۰۱۵ دارالکتب العلمیۃ بیروت
شرح شفاء جلد۱صفحہ۱۷۲ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
سبل الہدیٰ الرشاد جلد۱۰ صفحہ ۴۰ مکتبہ نعمانیہ پشاور ۔
مستدرک حاکم جلد۵صفحہ۶۲۲ رقم الحدیث ۶۹۱۲ شبیر برادرز لاہور۔
البدایہ والنھایہ جلد ۵ صفحہ ۳۴۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔
مدارج النبوت جلد۱صفحہ۸۴ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
الخصائص الکبریٰ جلد۱ صفحہ ۲۰۲ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
حجۃ اللہ علی العالمین جلد۲ صفحہ ۴۰۴ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور
مذکورہ بالا حدیث پاک کے متعلق حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
وحدیث ھذہٖ المراٗۃ الّتی شربت بولہٗ صحیح’‘الزم الدّار قطنی مسلماً والبخاری اخراجہٗ فی الصّحیح۔ 
یعنی یہ حدیث پاک کہ ام ایمن نے بول مبارک پی لیا صحیح حدیث ہے امام دارقطنی رحمتہ اللہ علیہ نے امام مسلم اور امام بخاری کی شرائط پر اس حدیث کو صحیح پایا اور کہا کہ ان دونوں اماموں کو یہ حدیث اپنی اپنی صحیح میں درج کرنی چاہیے تھی۔ (الشفاء جلد۱ صفحہ۶۶ وحیدی کتب خانہ پشاور) 
(4) عبدالرزاق نے ابن جریج سے روایت کی وہ فرماتے ہیں مجھے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ﷺ لکڑی کے ایک پیالے میں پیشاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر اس پیالے کو آپ کی چارپائی مبارک کے نیچے رکھ دیا جاتا تھا۔ ایک دن آپ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ پیالہ خالی تھا۔ آپ ﷺ نے حضرت برکت حبشیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا وہ پیشاب کہاں ہے جو اس پیالے میں موجود تھا انہوں نے عرض کیا میں نے اسے پی لیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا ۔’’صحۃ’‘ یا اُمّ یوسف ‘‘اے ام یوسف توصحت یاب ہوگئی اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اسے فرمایا۔ لقد احتظرت من النّار بحظار۔ تو نے اپنے آپ کو دوزخ سے بچالیا۔ 

یہ عورت حضرت امِ حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھی جیسے وہ اپنے ساتھ حبشہ سے لائی تھیں اس کا نام برکت حبشیہ تھا اور کنیت ام یوسف تھی ۔ اس پیشاب کی برکت سے انہیں پوری زندگی اور کوئی مرض لاحق نہ ہوا سوائے مرض الموت کے۔ (ابن وحید رحمتہ اللہ علیہ نے کہا یہ واقعہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کے علاوہ ہے)
شرح شفاء جلد۱ صفحہ ۱۷۲نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور 
شرح زرقانی علی المواہب جلد ۵ صفحہ۵۴۹ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
سیرت حلبیہ جلد ۲ صفحہ ۳۱۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت
مجمع الزوائد جلد۸ صفحہ۳۴۶ رقم الحدیث ۱۴۰۱۴ دارالکتب العلمیۃ بیروت
مدارج النبوت جلد ۱ صفحہ ۸۵ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
الخصائص الکبریٰ جلد۱ صفحہ۲۰۲ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
حجۃ اللہ علی العالمین جلد ۲ صفحہ ۴۰۴ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور

(5) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ ایک دن بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ حضور ﷺ پچھنے لگوارہے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایااے عبداللہ اس خون کو لے جاؤ اور ایسی جگہ انڈیلو جہاں کوئی دیکھے نہ ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون مبارک کو باہر جا کر پی لیا ۔ جب وہ واپس آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے عبداللہ تونے خون کہاں محفوظ کیا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اسے ایسی جگہ محفوظ کیا ہے کہ جہاں کوئی دیکھ نہ سکے اور مجھے یقین ہے کہ وہ لوگوں سے مخفی رہے گا’’ قَالَ فَلَعَلکَ شَرِ بتہ‘‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید تونے پی لیا ہے۔انہوں نے عرض کیا ’’ہاں‘‘ حضورﷺ میں نے پی لیا ہے ۔ قال ویل’‘ للنّا منک وویل’‘ لّک من النّاس، آپ ﷺ نے فرمایا۔ لوگوں کو تجھ سے ہلاکت ہے اور تجھے لوگوں سے اس کا مطلب خود صاحب کتاب نے بیان کیا ہے لکھتے ہیں۔ وکان بسبب ذلک علیٰ غایۃ الشّجاعۃ ۔یعنی خون پینے کی برکت سے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ میں حددرجہ کی شجاعت اور بہادری آگئی تھی۔ 
سیرت حلبیہ جلد ۲ صفحہ۳۱۹ باب ذکر مغازیہ ﷺ دارالکتب العلمیۃ بیروت
مجمع الزوائد جلد ۸ صفحہ ۳۴۵ رقم الحدیث ۱۴۰۱۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت
شرح زرقانی علی المواہب جلد ۵ صفحہ۵۴۶ نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی لاہور
سبل الہدیٰ والرشاد جلد۱۰ صفحہ۴۰ مکتبہ نعمانیہ پشاور
مدارج النبوت جلد ۱ صفحہ۸۶ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
الخصائص الکبریٰ جلد۱ صفحہ۱۹۷ مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور
حجۃ اللہ علی العالمین جلد ۲ صفحہ۴۰۱ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور
مستدرک حاکم جلد ۵ صفحہ۳۳۹ رقم الحدیث ۶۳۴۳ شبیر برادرز لاہور
کنز العمال جلد ۱۳ صفحہ۲۰۲ رقم الحدیث ۳۷۲۲۳ دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ 

البدایہ والنھایہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خون مبارک پی کر حضور ﷺ کی بارگاہ میں واپس آئے تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی آگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔ اے عبداللہ کیا تم فارغ ہوگئے؟ انہوں نے کہا جی حضور تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا بات ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اسے اپنے پچھنوں کا دھون گرانے کو دیا تھا۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے عرض کی قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے۔ یہ اسے پی گیا ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا تم اسے پی گئے ہو۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں ۔ آپ ﷺ نے پوچھاکیوں؟ انہوں نے کہا میں نے چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کا خون مبارک میرے پیٹ میں شامل ہوجائے۔