اہل اللہ کی توجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کھانے میں برکت ڈال دیتاہے۔ حضرت صاحبزادہ میاں محمدابوبکر صاحب دامت برکاتہم حضرت علامہ عبدالعزیز نوری صاحب ساکن حویلی لکھاکے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاں حویلی لکھامیں تشریف لے گئے۔ آپ کی خدمت میں ایک پیالہ دہی کاپیش کیاگیااورآپ وہ دہی پیالوں کے ساتھ حاضرین میں تقسیم فرماناشروع کردیا۔ تمام حاضرین نے دہی سیرہوکرکھایا لیکن پیالے کادہی کم نہیں ہوا۔
صوفی محمدابراہیم صاحب ساکن چک 6R۔86نزد ساہیوال کابیان ہے کہ ہم ٹھیکے پرزمین لے کر کاشت کرتے تھے۔ ہماراٹیوب ویل خراب ہوگیا۔ مالکوں کوٹیوب ویل درست کروانے کے لیے کئی بارگزارش کی گئی لیکن وہ ٹیوب ویل کو درست تیارکروانے تیارنہ ہوئے جبکہ فصل کامسلسل نقصان ہورہاتھا۔ ایک دفعہ حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہاں تشریف لائے تو میں نے عرض کیاحضور!ٹیوب ویل خراب ہوگیاہے۔ آ پ دعافرمائیں کہ یہ کام کرنا شروع کردے۔ آپ نے فرمایا:زمین کے مالک سے کہیں کہ وہ نیاٹیوب ویل لگا دیں۔میں نے عرض کیا:حضور!وہ نیاٹیوب ویل لگاکرنہیں دیتے۔ اسی لیے تودعا کرنے کی درخواست کی ہے۔آ پ نے ٹیوب ویل کے پاس کھڑے ہوکر دعافرمائی تو ٹیوب ویل اسی وقت درست ہوگیااورکام کرناشروع کردیا۔ جب تک ہم زمین کاشت کرتے رہے ٹیوب ویل مسلسل کام کرتارہااورجب ہم نے زمین چھوڑدی تو ٹیوب ویل پہلے کی طرح خراب ہوگیا۔ جس کے نتیجے میں زمین کے مالکوں کونیاٹیوب ویل لگاناپڑا۔
صاحبزادہ حضرت میاں غلام احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ نے73سال کی عمرمیں11جولائی 1997 ء بمطابق5ربیع الاول 1418 ھ بروز
جمعتہ المبارک تہجدکے وقت سجدہ کی حالت میں وصال فرمایا۔
اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ o
آپ کے برادرِاصغرحضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمدشرقپوری رحمۃاللہ علیہ کی نگرانی میں مناظرِاسلام حضرت علامہ مولانا عبدالتواب صاحب صدیقی اورعلامہ قاری غلام عباس صاحب خطیبِ اعظم نوشہرہ ورکاں نے ہفتہ کی رات کودوبجے تک غسل اورتجہیزو تکفین کاعمل مکمل کرلیاتھا۔
آپ کے وصال کی خبر ریڈیو، ٹی وی اوراخبارات کے ذریعے وطن عزیز کے طول وعرض میں پہنچ گئی۔ عقیدت مندوں، خدام اور متوسلین کی آمد کا سلسلہ جمعتہ المبارک کے دن ہی شروع ہوگیا۔ حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندمجددی رحمۃاللہ علیہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپورشریف نے بروزہفتہ صبح دس بجے نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کو شرقپورشریف کے تاریخی اورمشہورقبرستان ڈوھرانوالہ میں حضرت شیرربانی رحمۃاللہ علیہ کے دربارعالیہ میںآپ کے دائیں پہلومیںآپ مدفون ہوئے۔
دنیا میں جس نے قدم رکھا ہے اُسے ایک نہ ایک روز موت کا تلخ اور ہلاکت آفرین ساغر ضرور منہ سے لگانا پڑے گا۔اس دنیاکی ساری چیزیں ایک دن صفحہ ہستی سے مٹ جانے والی ہیں۔ ہر انسان کو معلوم ہے کہ جوکچھ وہ کررہا ہے یاآئندہ کرے گااس کا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔ دنیا کاایک ایک ذرہ اس کی ناپائیداری اور بے ثباتی پر گواہ ہے۔ بڑے بڑے خداکے پیارے اوربرگزیدہ بندے دنیامیںآئے۔ مگر بالآخر چند روز مسافرانہ زندگی بسرکرکے انہیں اپنے اصلی مرکزکی طرف رجوع کرناپڑا۔ بڑے بڑے عظیم الشان بادشاہ اورمشہور و نامور تاجدار جن کی سطوت و جبروت کے پُر شوکت و شاندار جھنڈے دنیا کے چاروں کونوں میں گڑے نظر آتے تھے۔ موت نے انہیں ایسا گمنام کیا کہ آج ان کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔
رہیں گے پھول نہ پھولوں میں رنگ وبوباقی
رہے گا اے معبود ایک تُو باقی
بقا کسی کو نہیں ہو کوئی ولی کہ نبی
یہ سب تجھی پہ مٹینگے رہے گا تُو باقی
اگرچہ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا المناک اور دل بجھادینے والا خیال برقی قوت بن کر تمام جہان میں دوڑرہا ہے اور زمانہ اپنے حیرتناک انقلابات کے نمونے مشاہدہ کراکے یہ سبق پڑھا رہا ہے کہ دنیا ایک بے حقیقت چیز ہے۔ اورجینا مرنا ایک معمولی بات ہے۔ اس پر خوش ہونے اوراس پر رنج کرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔
لیکن جب کوئی خدا و خلق کا محبوب دنیا سے اٹھ جاتا ہے تو پتھر کادل بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہتا۔ حقیقت میں حضرت میاں غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کاانتقال کوئی معمولی انتقال نہیں۔ جس جس کے کان میں حضرت میاں غلام احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی جاں گزا خبر پہنچی اور معلوم ہوا کہ آپ دنیا سے رحمت خدا وندی اور اس کی جنت میں انتقال کرگئے ہیں۔ وہ ایسے قلق واضطراب میں گرفتارہوا جو جگر کوپاش پاش کیے دیتاہے۔
حضرت میاں غلام احمدصاحب شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ مرگئے ہیں۔ وہ پہلے بھی زندہ تھے اور اب بھی زندہ ہیں۔ بلکہ آپ کی موجودہ زندگی سابقہ زندگی سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ اب آپ اپنے محبوبِ حقیقی سے جاملے ہیں اور توحید کے اس بحرِناپیدا کنار میں غوطے لگارہے ہیں جو آپ کی زندگی کااصلی اور حقیقی منشاتھا۔
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زِندہ شُدبعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما
نہ باشد مورد ہرگز انبیا را
نہ ہر یک اصفیا و اتقیا را
ز دارے تابدارے نقل باشد
شغل کار دنیا عزل باشد
اولیاء اللہ کوجوزندگی مرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے اس کے آگے دنیاکی بادشاہت ہونے کی کچھ وقعت نہیں۔ قرآن حکیم اس پر گواہ اور ناطق ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: وَلاَتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتْ ط بَلْ اَحْیَّآ ءُ‘وَّ لٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ط(ترجمہ)اور نہ کہو جوکوئی ماراجائے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو خبر نہیں۔
بزرگوں کے لیے موت بمنزلہ ایک دروازہ کے ہے۔ جس سے گزر کروہ خداتعالیٰ کی ایسی وسیع سلطنت کے وارث جابنتے ہیں۔وَاِذَارَاَیْتَ ثُمَّ رَاَ یْتَ نَعِیْمَّا وَّ مُلْکًا کَبِیْراً ط(الدھر۷۶:۲۰) ترجمہ۔اورجب تُودیکھے وہاں تودیکھے نعمت اورسلطنت بڑی۔
حضرت صاحبزادہ میاں غلام احمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃاللہ علیہ کاوصال 5ربیع الاول کوہوا۔ اب آپ اورحضرت شیرربانی رحمۃاللہ علیہ کے عرس مبارک کی تقریبات اکٹھی ہرسال 1،2،3ربیع الاول کوحضرت صاحبزادہ میاں محمدابوبکرصاحب دامت برکاتہم العالیہ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ شرقپورشریف کے زیراہتمام شرقپورشریف میں منعقد ہوتی ہیں۔