نور اسلام - نومبر-2018

رحمتہ اللعالمین حضرت محمدمصطفی ﷺ > صفحہ 2

 

بشارت حسین گوندل ایڈووکیٹ 

اللہ کی جانب سے بھیجے جانے والے انبیاء مرسلین ؑ کی چارہ گری کے باوجود جب سسکتی ہوئی انسانیت کے دکھوں اور مرض میں کمی نہ آئی توخدا وند عالم نے انسانیت کی مسیحائی کیلئے اپنی اولین تخلیق کو لباس بشر میں دنیا میں بھیجا تاکہ اللہ کی ہدایت کی تکمیل ہوجائے ۔ آدم ؑ کی طرح صفا وپاکیزگی ،نوح ؑ کی طرح نرمی وسادگی، ابراہیم ؑ کی طرح حلت ومحبت، اسمعیل ؑ کی طرح رضاوخوشنودی،یوسف ؑ کی طرح حسن وزیبائی، موسیٰ ؑ کی طرح تکلّم،داؤد ؑ کی طرح لحن اور عیسیٰ ؑ کی طرح کرامت وبزرگی ومسیحائی غرضیکہ ہرنبی کی صفات کا مجموعہ بناکر خاتم المرسلین حضرت محمدمصطفی ﷺ کو دنیا میں بھیجا گیا۔ 

نورِ محمدیؐ آدم ؑ سے عبداللہ ابن عبدالمطلبؓ تک طاہر اصلاب میں منتقل ہوتا رہا۔ اس نور کو اللہ نے چھ کرامتوں سے گرامی فرمایا، اس کو پیراہن خوشنودی پہنایا، ردائے ہیبت سے آراستہ کیا، تاج ہدایت اس کے سرپر رکھ کر اسکو رفعت کی بلندی پر پہنچایا، اس کے بدن کو جامہ رفعت پہنایا، محبت کا کمر بند اس کی کمر میں باندھا ،نعلین خوف وبیم اس کے پاؤں میں ڈالی عصائے منزلت ہاتھ میں دیا اور پھر وحی کی اے محمدﷺلوگوں کے پاس جاؤ اور کہو لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کا اقرار کریں۔ اس پیراہن خوشنودی کی اصل چھ جوہروں میں تھی لمبائی یاقوت کی، آستینیں مروارید کی، دامن بلورزرد کے ،بغل کے ٹکڑے زبرجد کے، اس کا گریباں مرجان سرخ کا اور گریبان کے چاک نور پروردگار عالم سے بنے ہوئے تھے۔ خدا نے اسی پیراہن کی برکت سے آدم ؑ کی توبہ قبول کی ،یوسف ؑ کو یعقوب ؑ سے ملایا، یونس ؑ کو مچھلی کے شکم سے نجات دی اسی پیراہن کی برکت سے ہرنبی نے مصیبت سے نجات پائی وہ پیراہن کوئی اور پیراہن نہ تھا بلکہ محمدمصطفی ﷺ کا پیراہن تھا‘‘(حیات القلوب جلد 2علامہ مجلسی ؒ )

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول خدا ؐ نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں میری عزت وحرمت یہ بھی ہے کہ میں مختون اور ناف بریدہ پیدا ہوا اور کسی نے میری ستر کو نہ دیکھا۔ حضرت علی ؑ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے گردرکھے ہوئے تمام بت منہ کے بل گر پڑے اور شام ہوتے ہی آسمان سے آواز آئی حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ بیشک باطل مٹ جانے والا ہی تھااس رات تمام دنیا روشن ہوگئی۔ پتھر اور درخت بہ زبان حال خوشی کا اظہار کرنے لگے ۔ زمین وآسمان میں موجود ہرشے خدا کی تسبیح کرنے لگی اور شیطان حواس باختہ ہوکر بھاگا بھاگا پھرنے لگا۔ ابن شہر آشوب اور صاحب انوار وغیرہ نے حضرت آمنہؓ سے روایت کی ہے کہ جب آنحضرت ؐ کی دُنیا میں تشریف آوری کا وقت آیا تو میں نے ایک سفید پرندے کو دیکھا جس نے اپنے پر مجھ پر ملے تو میرا خوف زائل ہوگیا میں نے کچھ عورتوں کو دیکھا جو مثل درخت قدآور تھیں وہ میرے پاس آئیں ان سے مشک وعنبر کی خوشبو آرہی تھی وہ نہایت پاکیزہ لباس پہنے ہوئے تھیں وہ مجھ سے باتیں کرنے لگیں، انکی گفتگو انسانوں سے مشابہ نہ تھی انکے ہاتھوں میں سفید بلور کے پیالے تھے جن میں بہشت کے شربت بھرے تھے انہوں نے کہا آمنہؓ اس کو پیو تم کو بہترین اولین وآخرین محمدمصطفی ﷺ کی خوشخبری ہو۔جب حضرت محمدﷺدنیا میں تشریف لائے تو کعبہ کی جانب رخ کرکے سجدہ کیا پھر ایک سفید اَبرنے حضور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا پھر ایک ہاتف کی آواز آئی کہ حضرت محمد ﷺ کو مشرق ومغرب کی سیر کراؤ تمام دریاؤں کو دکھاؤ تاکہ خلائق آپ ﷺکے نام صورت حلیہ سے مطلع ہوجائے ۔حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ میں دیکھ رہی تھی کہ گروہ درگروہ ملائکہ آکر سلام کرنے لگے۔ وہ یوں سلام کرتے تھے السلام علیک یا محمدﷺ ،السلام علیک یااحمدﷺ،السلام علیک یا حامدﷺ۔ 
تاریخ خمیس میں ہے کہ جب رسالت مآب ﷺ دُنیا میں تشریف لائے تو حضرت عبدالمطلبؓ نے اونٹوں کی قربانی کا حکم دیا۔ چنانچہ اونٹ ذبح کیے گئے اور قریش کے تمام لوگوں کو دعوت دی گئی۔ رسول خدا ﷺکاا صلی مقام ولادت شعب ابی طالبؓ میں وہ جگہ ہے جس کو زقاق مدکک کہتے تھے یہ وہی مقام تھاجو ابن اسیر کے بقول آنحضرت نے عقیل ابن ابی طالب ؑ کو ہبہ فرمادیا تھا جو بعد میں محمد ابن یوسف ثقفی کے پاس پہنچا ۔ ہارون رشید کی والدہ خیزران نے یہ جگہ خرید کر مسجد بنوادی اور سعودی دور میں یہاں لائبریری بنادی گئی۔ ابن عساکر اپنی تاریخ میں جہلمہ ابن عرفتہ کایہ مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ جہلمہ کا بیان ہے کہ میں ایک بار عین قحط کے موسم میں مکہ گیا۔قریش سخت مصیبت میں تھے ان میں سے ایک نے صلاح دی کہ لات وعزیٰ سے فریاد کی جائے، تیسرے نے کہا کہ منات سے چارہ جوئی کی جائے ان میں سے ایک معزز اور صاحب الرائے بزرگ بول اٹھاکہ مجھے اس امر کا کامل یقین ہے کہ ابھی تم لوگوں میں ایک بزرگ ایسا موجود ہے جو سلسلہ ابراہیمی ؑ کا بقیہ اور نسل اسماعیلی ؑ کا خلاصہ ہے۔ اسکی طرف کیوں نہ رجوع کیا جائے۔ سب نے کہا کہ تمہارا اشارہ ابو طالبؓ کی طرف ہے۔ اس نے جواب دیا ہاں۔ جہلمہ کا بیان ہے کہ یہ سن کر سب کھڑے ہوگئے۔ ہم سب مل کر ابوطالبؓ کے مکان پر آئے اور فریاد کی کہ اے ابو طالبؓ ہر طرف سے قحط عظیم آگیا ہے اور اہل وعیال کی بربادی کاوقت پہنچ گیا ہے۔ سب کو سیراب کیجیے۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوطالبؓ باہر نکل آئے۔ ان کے ساتھ ایک کمسن بچہ تھا جو جناب رسالت مآب ﷺ تھے۔ ان کا روئے منور آفتاب کی طرح روشن تھا۔ ابوطالبؓ اس صاحبزادے کو انگلی پکڑائے خانہ کعبہ میں آئے اور رکن کعبہ سے پیٹھ لگاکر بیٹھ گئے اور اس بچے کی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف بلند کردی اور طلبِ باران کی دعا کی۔ فوراً بادل نمودار ہوئے اور تھوڑی دیر بعد ایسا مینہ برساکہ ہرطرف جل تھل ہوگیا اور تمام صحرو بیاباں سرسبزوشاداب ہوگئے۔ اس موقع پر حضرت ابوطالبؓ نے شانِ مصطفی ﷺ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایاجوسیرت ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے جس کا مطلع یہ ہے کہ محمدﷺ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیموں کیلئے جائے پناہ ہے اور بیواؤں کا پردہ ہے بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ اس کے پاس پناہ لیتے ہیں۔ آنحضرت ؐکے اس اعجاز کو دوسرے علماء نے بھی نقل کیا ہے۔ جس نبی کے وسیلے سے بارشیں اور رحمتیں برستی ہیں آج بدقسمتی سے اس خاتم الانبیاء ؐ کی امت بحران دربحران سے دوچار ہے اور اغیار اسے پامال کیے جارہے ہیں جس کا بنیادی سبب نبی کریم ﷺ کی تعلیمات وافکار سے دوری ہے وہ ہستی جس کے وسیلے سے اللہ نے انبیاء کی مشکلیں آسان کیں اگر آج بھی امت مسلمہ اسی دامن مصطفی ﷺ سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ استوار کرلے تو کامرانیاں اور کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں گی۔

؂ اے یوسف ؑ ویعقوب ؑ کی امید کا محور
اے باب مناجات دل یونس ؑ وادریس ؑ