نور اسلام - نومبر-2018

محمدﷺ احسانِ عظیم > صفحہ 1

 

ماسٹر محمد اشرف شاد شرقپوری 

اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ؐکو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ’’ رحمتہ للعالمین ؐ‘‘کی آمد سے قبل پوری دنیا شرک وبدعت ،ضلالت وگمراہی اور معصیت ونافرمانی کے عمیق گڑھے میں گری ہوئی تھی، انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی، لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، عورتوں اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔ مردوعورت بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے، ایک خدا کو چھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کی جاتی حتیٰ کہ خانہ کعبہ میں اس مقصد کیلئے 360(تین سوساٹھ) بت رکھے ہوئے تھے ان حالات میں جبکہ ہرطرف انسانیت سسکتی اور دم توڑتی دکھائی دے رہی تھی حضور اقدس ﷺ دنیا میں ’’رحمتہ للعالمین ؐ‘‘بن کرتشریف لائے اور حضرت عبداللہ ؓ کے گھر سے طلوع ہونے والے اس آفتاب وماہتاب کی روشنی سے پوری دنیا فیضیاب ہونے لگی، آپ ﷺ کی آمد وتشریف آوری ایسی ’’نعمت عظمیٰ‘‘ ہے کہ جس کو خداتعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں پر ’’احسانِ عظیم‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ آپ ﷺ سراپا رشدوہدایت اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے کامل نمونہ ہیں اور آپ ﷺکے اسوہ حسنہ ‘‘میں دُنیا وآخرت کی فلاح وکامیابی کو مضمر کردیا گیا ہے۔ رحمتہ للعالمین ؐ اعلانِ نبوت سے قبل ہی صادق اور امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے لوگ آپﷺ کے پاس امانتیں رکھتے اور معاملات کے فیصلے کرواتے، لیکن جب ’’رحمتہ للعالمینؐ ‘‘ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اعلانِ نبوت کرتے ہوئے ان کو بتوں کی پرستش ترک کرکے ایک خدا کی عبادت کرنے اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دینے کے بارے میں کہا تو یہی قوم جو آپ ﷺ کی پاک دامنی اور صدق وامانت کی قسمیں کھانے والی تھی وہی آپ ﷺکے خلاف ہوگئی، آپ ﷺ کو طرح طرح سے تکالیف دی جانے لگیں۔ طائف کے میدانوں میں آپ ﷺ کو توحید کی دعوت دینے کی پاداش میں پتھرمار مارکر لہولہان کردیا گیا۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ایک مرتبہ رحمتہ للعالمینؐ سے سوال کیا کہ !کیا آپ ﷺ پر ’’احد‘‘ سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آیا؟ تو آپﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ سب سے زیادہ مجھے اذیت و تکلیف (کافروں) سے طائف کی گھاٹی میں پہنچی جس دن میں نے عبدیالیل کے بیٹے پر (دعوت وتبلیغ کے لیے) اپنے آپ کو پیش کیا ۔دعوت توحید دینے کی پاداش میں آپؐ پر گندگی پھینکی جاتی اور آپ ؐ کو مجنون دیوانہ اور جادوگر تک کہا گیا۔ آپﷺ پر ایمان لانے کی وجہ سے صحابہؓ کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنادیا جاتا ہے.شعبِ ابی طالب میں آپ ﷺ اور آپﷺکے جان نثار صحابہ کرامؓ پر زندگی تنگ کردی گئی آپ کا مکمل سماجی مقاطعہ کردیا گیا توکہ آپ ﷺ کے جان نثار بھوک وپیاس سے تنگ آکر حضور ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیں۔ احد کے میدان میں آپﷺکے دندان مبارک شہید کیے گئے، آپ ﷺپر ایمان لانے کی پاداش میں حضرت بلالؓ ،حضرت خبابؓ اور یاسرؓ وعمارؓ سمیت دیگر صحابہ کرامؓ کو گرم ریت اور دہکتے انگاروں پر لٹا یا گیا لیکن اس سب کے باوجود ’’رحمتہ للعالمینؐ‘‘نے کبھی ان ظالموں کیلئے بددعا نہیں کی بلکہ ہدایت کیلئے ہی دعا کی۔ ان حالات میں بھی ’’محسنِ انسانیتؐ ‘‘ نے اپنے مشن کو زندہ اور جاری رکھا ،مکہ کے لوگوں نے جب ظلم وتشدد کی انتہا کردی تو آپ ﷺنے خداتعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ جہاں انصار نے حضور ﷺ اور ہجرت کرکے آنے والے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اخوت ومحبت کا وہ بے مثال مظاہرہ کیا کہ تاریخ انسانی اس کی نظیر ومثال پیش کرنے سے عاجز ہے۔ 

پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جب رحمتہ للعالمین ؐ اپنے دس ہزار جاں نثار صحابہ کرامؓ کے لشکر کے ہمراہ اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جہاں حضور ﷺ کے سرمبارک کی قیمت سوسرخ اونٹ مقرر کی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی انتقام اور فتح کا غرور نام کی آپ ﷺ میں کوئی چیز نظر نہیں آتی’’رحمتہ للعالمین ‘‘ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے ہوئے عاجزی وانکساری کے ساتھ سواری پر اس قدر جھکے ہوئے ہیں کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور سواری کی پشت کے ساتھ ملا ہوا نظر آتا ہے۔’’رحمۃللعالمینؐ‘‘سب کے لیے معافی کا اعلان فرمادیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس موقع پر ابوجہل کا بیٹا عکرمہ اور آپ ﷺکے چچا’’سید الشھداء‘‘ حضرت حمزہؓ کو شہیدکرنے والے بھی بارگاہ میں حاضر ہوکر آپ ﷺکے ہاتھ پر ایمان لے آتے ہیں اور پھر رحمتہ للعالمین ؐ بیت اللہ میں داخل ہوکر360بتوں کو توڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ بلند کرکے حق کے آجانے اور باطل کے مٹ جانے کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چشم فلک نے پھر یہ منظر بھی دیکھا کہ جب مکہ کی گلیوں میں ایمان لانے کی پاداش میں ظلم وتشدد کا نشانہ بننے والے سیدنا حضرت بلال ، حضورﷺ کے حکم سے ’’خانہ کعبہ‘‘ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت وکبریائی اور حضور ﷺ کی رسالت کا اعلان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے اور حضور ﷺ کی سیرت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!