نور اسلام - نومبر-2018

(حضرت میاں خلیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ) > صفحہ 1

 

(پروفیسر خالد بشیر)

انبیاء ؑ اور صوفیہ کرامؒ کے تذکرے نہ صرف روحانی فیضان کا باعث بنتے ہیں بلکہ مردہ دلوں کو زندہ کرتے ہیں ،کمزور دلوں میں ولولہ اور جراٗت پیدا کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے آدھے سے زیادہ حصے میں سابقہ امتوں کے انبیاء واولیاء کے خوب قصے سنائے اور اس طرح حضورِ اکرم ﷺ کے قلبِ مبارک کو وہ قوت بخشی کہ باید و شاید:
وکلانقص علیک من انبآ ء الرسل مانثبت فوادک
ترجمہ:ہم تجھے انبیاء ورسل کے واقعات سنائیں گے تاکہ اُس سے تیرے دل کو قوی کریں۔(سورۃ ھود آیت 120)

جدید دور تشکیک کا دور ہے نئی نسل کے کمزور ،مایوسی میں غوطہ زن تشکیک زدہ دلوں کے لئے صوفیہ عظام کے حالات وواقعات بڑی قوت اور طمانیت کا باعث ہوسکتے ہیں۔ امتِ مسلمہ کو زوال سے نکالنے کا صرف اور صرف یہی طریقہ ہے کہ ہم اولیاء کرام کو مشعل راہ بنائیں۔ ناول ڈراموں اور افسانوں کے جھوٹے سچے قصے قوم کو خوابِ غفلت سے نہیں جگاسکتے۔ زندگی سنوارنے کے لیے سچی اور ولولہ انگیز سیرتوں کی ضرورت ہے۔
آستانہ عالیہ شرقپورشریف کے موسس شہباز لامکانی ،غوثِ زمانی ،شیر ربانی حضرت میاں شیر محمدشرقپوری نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ اس سلسلہ کے متوسلین پوری دُنیا میں اسلام کی شمع روشن کرنے کے لیے دن رات کام کررہے ہیں۔جناب صاحبزادہ خالد سیف اللہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ بیربل شریف سرگودھا ’’الرحیق العرفان‘‘ کے صفحہ15پر تحریر کرتے ہیں۔
’’اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ جیسی نابغہ روزگار شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ تقریباً ایک صدی پہلے آپؒ نے صوبہ پنجاب کے مسلمانوں کی اصلاحِ معاشرت ، احیائے سنت اور تصوف اسلام کی تبلیغ کا جو کام سرانجام دیا اسی کے اثرات ابھی تک دیکھے جارہے ہیں۔ آپؒ کے تربیت یافتہ جانشین حضرات اور خلفاء نے اس کارِ خیر میں گراں قدر اضافہ کیا ہے جو تاقیامت جاری رہے گا۔‘‘2

اعلیٰ حضرت شیرربانی شرقپوریؒ نے پروفیسر اصغر علی کی روحانی تربیت کی روحی ؒ صاحب آپ کے مرید بھی تھے ۔جو کہ اسلامیہ کالج لاہور میں عربی کے پروفیسر تھے۔ آہستہ آہستہ یہ کالج تحریکِ پاکستان کا مرکز بن گیا اور پروفیسر صاحب نے درجنوں شاگردوں کی تربیت کرکے تحریکِ پاکستان کے ہراول دستے میں شامل کردیا۔ چوہدری رحمت علی ، چوہدری محمدعلی، حمید نظامی، پروفیسر عبدالمجید سالک، ملک غلام محمد رحمۃ اللہ علیہم اور آپ کے دیگر بے شمار شاگردوں نے تحریکِ پاکستان کے لیے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ اس کی تفصیل میرے مقالے ’’آستانہ عالیہ شرقپورشریف اور تحریکِ پاکستان ‘‘ میں پڑھی جاسکتی ہے۔
آپؒ کے برادرِ اصغر حضرت میاں غلام اللہ المعروف ثانی لاثانی ؒ نے شرقپورشریف میں تحریکِ پاکستان کے زیر انتظام مسلم لیگ کے نہ صرف جلسے کروائے بلکہ مسلم لیگ کی باقاعدہ مالی امداد بھی کرتے رہے۔

عکسِ شیرر بانی حضرت میاں خلیل احمد شرقپوریؒ کے والدِ گرامی فخر المشائخ قیوم العالم حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری نقشبندی مجددی ؒ تبلیغ اسلام، اصلاح معاشرہ اور اشاعت کتبِ تصوف میں اپنے اسلاف سے بھی آگے نکل گئے۔ آپ بادشاہ گر تھے آپ نے نہ صرف حضرت مولا نا شاہ احمد نورانی ؒ ، حاجی حنیف طیب ؒ اورعبدالستار خاں نیازی ؒ جیسے بے شمار لیڈر ان کے ساتھ مل کر پاکستان میں اہلسنت کو مضبوط کیا بلکہ میرے جیسے بے شمار لوگوں کو انسان بنایا۔
عکسِ شیرِ ربانی قیوم العالم ؒ فخرالمشائخ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ آپ 6اکتوبر1955ء ؁ بروز جمعرات بوقت دوپہر حویلی میاں صاحب میں بمطابق 18صفر 1377ھجری کو سرزمینِ صوفیا شرقپورشریف میں پیدا ہوئے۔ آپ ؒ کے والدِ گرامی حضرت میاں جمیل احمد شرقپوریؒ نے آپؒ کے کان میں اذان پڑھی اور ’’خلیل احمد ‘‘نام رکھا۔ ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا گیا۔ قاضی نور اللہ نقشبندی مجددی پھلروان ضلع شیخوپورہ ایک ماہر تعلیم ہیں۔ آپ قاضی ظہور احمد اختر صاحب کے صاحبزادے ہیں جو قیوم العالم ؒ کے مرید ہیں اور محکمہ تعلیم ڈسٹرکٹ شیخوپورہ سے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ریٹائر ہوئے ہیں۔ آپ اعلیٰ پایہ کے لکھاری ہیں آستانہ عالیہ شرقپورشریف کے بزرگوں اور نقشبندی صوفیاء پر کافی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ قاضی نور اللہ صاحب روایت کرتے ہیں ہم آستانہ عالیہ میں عرس والی جگہ پر حضرت میاں خلیل احمد شرقپوری ؒ کے حلقہ میں بیٹھے تھے۔ جب مجمع منتشر ہوگیا اور ہم چند خاص احباب رہ گئے تو آپؒ نے فرمایا:

’’جب میں پیدا ہوا تھا تو میرے شانہ پر مہرِ ولایت ثبت تھی جس طرح نبی کریم ﷺ کے شانہ مبارک پر مہر نبوت تھی۔ میرے والد ماجد فخر المشائخ حضرت صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی نے میری امی کو ہدایت فرمائی کہ وہ مجھے چھپاکر رکھیں اور یہ مہرِ ولایت کسی کو نہ دیکھنے دیں ۔چنانچہ میری والدہ ماجدہ مجھے چھپاکر رکھتی تھیں۔ نہلاتے وقت بڑی احتیار کیا کرتی تھیں کہ کہیں کوئی مجھے دیکھ نہ لے۔ ایک دن جب میری والدہ ماجدہ مجھے نہلا رہی تھیں تو ایک عورت نے میری وہ مہر ولایت دیکھ لی اس کے بعد وہ مہرِ ولایت مدھم ہونی شروع ہوگئی اور جوکہ آج بھی مدھم حالت میں موجود ہے‘‘3

تعلیم وتربیت:

آپ کی روحانی تربیت آپ کے والد گرامی قیوم العالم حضرت میاں جمیل احمدشرقپوری ؒ نے کی۔ حافظ عبدالغفور صاحبؒ سے قرآن پاک پڑھا۔ بچپن سے ہی نمازِ پنجگانہ اور شریعت کی پابندی آپؒ کا معمول تھا اور دینی معاملات کو بخوشی سرانجام دیتے۔ آپ نے گورنمنٹ پرائمری سکول شرقپورشریف سے پانچویں کا امتحان پاس کیا اور پھر گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول شرقپورشریف میں داخلہ لیا۔ سکول کی یونیفارم میں خاکی پینٹ لازمی تھی۔ آپ اپنے دادا جان اعلیٰ حضرت شیرربانی ؒ کی طرح انگریزی تہذیب وتمدن اور لباس سے نفرت کرتے تھے۔ آپؒ نے اپنے اساتذہ سے نہایت ادب سے گذارش کی کہ میں ایک مسلمان بچہ ہوں اس لیے انگریزی لباس کی پینٹ نہیں پہنوں گا۔ ماسٹر شیخ محمدفاروق صاحبؒ جوکہ حضرت ثانی لاثانی ؒ کے مرید تھے انہوں نے ہیڈماسٹر میاں عمر دین صاحب سے خصوصی اجازت لے کر دی۔ آپ پینٹ کے رنگ کی شلوار پہن کر سکول جایا کرتے تھے۔ آپ نے1972ء ؁ میں میٹرک پاس کیا اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے ایف ۔اے کیا۔ اپنے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے طبیہ کالج لاہور سے طب وحکمت کی ڈگری حاصل کی لیکن آپؒ نے طب کو پیشہ کے طور پر نہ اپنایا ۔ لیکن اگر کوئی بیمار آپؒ کی خدمت میں اپنی بیماری کا ذکر کرتا تو آپؒ اُسے کوئی دیسی یونانی طب کا نسخہ بتادیتے جس کے استعمال سے مریض صحت یاب ہوجاتے ۔ آپؒ فرمایا کرتے تھے کہ
’’حکمت مجھے وراثت میں ملی ہے میرے دادا جان حضرت میاں غلام اللہ صاحب بھی حکمت جانتے تھے۔ ‘‘4

مادرزاد ولی:

آپؒ کی والدہ محترمہ کی روایت کے مطابق آپ کی پیدائش اچھرہ لاہور میں ہوئی۔ آپؒ کی پیدائش کے وقت کمرے میں ایک نور کا شعلہ نمودار ہوا اور کمرے میں روشنی ہوگئی۔ آپؒ کے دائیں کندھے کے اوپر سرخ رنگ کا اُبھار تھا۔ بچپن میں جب آپ کی قمیص اُتاری جاتی تو آپ زاروقطار روتے۔ جب قمیص پہنادی جاتی تو آپ خاموش ہوجاتے۔ بچپن میں سوتے وقت اپنے ہاتھ اپنے سینے پر اس صورت رکھ کر سوتے تھے جیسے کوئی نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو۔ آپ نے تین ماہ کی عمر میں’’اللہ ہو‘‘ کا ورد شروع کردیا تھا جوکہ صاف طور پر سنائی دیتا۔ آپؒ عام بچوں کی طرح کھیل کود میں حصہ نہ لیتے تھے۔ بلکہ بوڑھے مردوں اور عورتوں میں بیٹھتے اور اُن سے صوفیہ کرام کی باتیں سنتے۔ آپؒ جوبات کہہ دیتے اللہ تعالیٰ اُسے پوری کردیتا۔ آپؒ بچپن میں اپنی نانی اماں کے پاس اچھرہ لاہور تشریف لے گئے۔ اُن کی شہر لاہور میں کافی جائیداد تھی۔ اُن کا ایک چھوٹا سا مکان فروخت نہ ہوتا تھا۔ آپ نے اپنی نانی جان کی پریشانی دیکھی تو آپ کے منہ سے چارہزار چارسو کے الفاظ نکلے۔ تھورے عرصے بعد وہ مکان اتنی ہی رقم میں فروخت ہوا۔ 5

احترامِ والدین:

آپؒ کے والدِ گرامی فخر المشائخ قیوم العالم حضرت میاں جمیل احمد نقشبندی مجددیؒ سجادہ نشین آستانہ عالیہ شیرربانی شرقپورشریف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپؒ کی قیومیت پر تفصیل جاننے کیلئے ’’فخر المشائخ‘‘ جلد اول کے صفحہ200پر میرا مقالہ’’فخر المشائخ کا روحانی عروج ‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔ آپؒ اکیسویں صدی کے مجدد اور اپنے وقت کے نائبِ رسولؐ تھے۔ آپؒ کی والدہ محترمہ نہایت نیک ولیہ کاملہ ہیں۔ اپنے والدِ گرامیؒ کی طرح آپؒ نہ تو عورتوں کو ملتے اور نہ بیعت کرتے۔ اگر کوئی عورت ضد کرتی تو آپؒ فرماتے:
’’آپ میرے پاس دُعا کروانے نہ آیا کریں بلکہ میری امی جی کے پاس گھر چلی جائیں۔ اُن کو اپنی حاجت ومشکل بتائیں اور اُن سے دُعا کروائیں تو اللہ تعالیٰ پوری کرے گا۔‘‘6

دلکش شخصیت:

آپ نہایت دلربا اور خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی پیشانی کشادہ ،بڑی روشن آنکھیں، خلادارچھوٹے چمکدار دانت اور گھنی ریش مبارک تھی۔ وصال سے چند سال پہلے آپ کی داڑھی مبارک میں سفیدی چھلکتی ہوئی دکھائی دیتی۔ آپ فقرِ شیرربانی کے مظہر نظر آتے تھے۔ آپ کی آنکھیں اکثر سرخ رہتیں جن میں عشق رسالت مآب ﷺ کا نشہ چھلکتا ہوا نظر آتا۔ آپ کی زیارت کرکے اللہ یاد آجاتا تھا۔ آپ کی پیار بھری باتیں سامعین کو سحر زدہ کردیتیں۔ آپ جہاں بھی تشریف رکھتے افراد کا ہجوم آپ کے گرد اکٹھا ہوجاتا اور لوگ لائن بناکر آپ سے مصافحہ کرتے۔

بیعت وخلافت:

ماسٹر محمداشرف شاد شرقپوری روایت کرتے ہیں کہ صاحبزادہ میاں خلیل احمد شرقپوریؒ نے میرے سامنے شہر والے پرانے گھر میں اپنے والدِ گرامی کے دستِ مبارک پر1972ء ؁ میں16سال کی عمر میں بیعت کی۔ بوقت بیعت آپؒ کے والد صاحب نے فرمایا۔
’’میاں خلیل احمد ہم نے آپ کو بیعت تو کرلیا ہے لیکن اس پیری مریدی کو ذریعہ معاش نہ بنانا‘‘۔7
آپ حلقہ مریدین میں اکثر اس بیعت کی تصدیق کرتے اور فرماتے کہ میں اپنے اباجی کے ہاتھ پر بیعت ہوں میں آپ کا مرید ہوں اس لیے میرے سارے مرید حقیقت میں اباجی کے مرید ہیں۔ آپ اپنے والد گرامی کا ہرحکم مانتے۔ آپ اکثر فرمایا کرتے۔
’’میں اپنے ابا جی سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتاکیونکہ وہ میرے والد صاحب بھی ہیں اور میرے پیر بھی‘‘
میں نے اکثر آپ کو اپنے والد گرامی کے پاس اتنے ادب واحترام سے بیٹھے دیکھا جیسے کوئی باادب شاگرد اپنے استاد کے سامنے خاموش بیٹھاہو یا اولین دور کے مریدین اپنے پیرومرشد کے سامنے زانوء ادب طے کررہے ہوں۔ آپ جب سب مریدین کی گذارشات سن لیتے اور دُعا کے بعد آپ فرماتے۔
’’جاؤ اب میرے ابا جی کی زیارت کرلو‘‘۔8
بیعت کے لغوی معنےٰ اطاعت قبول کرنا یا فرمانبرداری کا عہدوپیمان باندھنا ہے۔ بیعت بیع سے مشتق ہے جس کے معنی فروخت ہونا یا بک جانا کے ہیں ۔ عرفِ عام میں بیعت سے مراد کسی کامل صوفی کا مرید ہونا ہے یا مکمل طور پر اُس فردِ کامل سے وابستہ ہونا۔ اس کے دوبڑے مقاصد ہیں۔
(i کسی عقیدے سے وابستہ ہوکر کسی شخص کی تعلیم کو قبول کرنا۔
(ii کسی کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ہے۔
بیعت کی دوقسمیں ہیں:
(1 بیعتِ طریقت:
وہ امور جن کا تعلق تصفیہ قلب اور تزکیہ نفس سے ہے اسی بیعت میں شامل ہیں اور یہی اعمال تقربِ الی اللہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔
(2 بیعتِ ارشاد:
صوفیہ کرام جب کسی مرید میں تیزرفتاری سے منازل سلوک طے کرنے کی صلاحیت دیکھتے ہیں تو اس مرید سے بیعت ارشاد لیتے ہیں۔ جب پیر بھی کامل ہو اور مرید بھی باصلاحیت ہوتو سالوں کا کام مہینوں میں ہوجاتا ہے۔ حضرت خواجہ باقی باللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کو صرف اڑھائی(2189)ماہ میں کامل مکمل سلوک طے کروادیا تھا۔
چاروں سلاسلِ طریقت میں بیعت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اللہ تعالیٰ سورہ الفتح آیت نمبر10میں فرماتا ہے۔
ترجمہ: ’’جو لوگ آپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں اُن لوگوں کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘
قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ سے نہ صرف انسانِ کامل کے ہاتھ پر بیعت کرنا ثابت ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکے ہاتھ مبارک کو اپنا ہاتھ قرار دیا ہے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان سلسلہ نقشبندیہ قادریہ سہروردیہ، چشتیہ کے کسی کامل صوفی کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے وہ دراصل دوجہانوں کے شہنشاہ ،عالمین کے لیے رحمت، عاشقوں کے دلوں کی راحت جنابِ احمد مصطفی ﷺکے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے۔
بیعت ہونا سنتِ صحابہ کرامؓ ہے نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ نے متعدد بار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ان باتوں پر بیعت لی۔
(1 وہ اللہ کے سوا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے
(2 وہ برائیوں سے بچنے کی کوشش کریں گے
جب کوئی گنہگار مسلمان کسی کامل ولی کے ہاتھ پر بیعت کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا وعدہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو اُس کامل مرشد کے وسیلہ سے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔
سورہ التوبہ کی آیت نمبر111 بھی بیعت کی تصدیق کرتی ہے۔
ترجمہ: ’’یقیناًاللہ نے خریدلی ہیں مومنین سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال کہ اُن کے لیے جنت ہے۔‘‘
حضرت پیر کرم شاہ الازھری ؒ ضیاء القرآن کی جلد دوم کے صفحہ255پر اس آیت کی شانِ نزول کے بارے تحریر کرتے ہیں:
’’جب ستر انصار مکہ میں آئے اور رات کی تنہائی میں حضور کریم ﷺکے دستِ مبارک پر وہ تاریخی بیعت کی جسے بیعتِ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے تو اُس وقت حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے عرض کی اے اللہ کے نبی! جوشرط آپ اپنے رب کے لیے اور اپنی ذات کیلئے ہم سے منوانا چاہتے ہیں منوالیجئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ کے لیے تو یہ شرط ہے ’’ ان تعبدولاتشرکو بہٖ شیئاً ۔‘‘ کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اُس کا شریک نہ بناؤ اور اپنے لیے یہ شرط ہے ’’ان تمنعونی مماتمنعون منہ انفسکم واموالکم۔ ’’یعنی جس چیز سے تم اپنے جان ومال کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری حفاظت کرو‘‘ انصار نے عرض کی کہ اگر یہ شرطیں ہم نے پوری کردیں تو ہمیں کیا ملے گا فرمایا جنت اس وقت خوشی سے اُن کے دل باغ باغ ہوگئے اور کہنے لگے یہ سودا بڑا نفع مند ہے اب ہم اس سودے کو نہ توڑیں گے نہ اس کو توڑنے کی آپ سے خواہش کریں گے۔ اس وقت یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی‘‘۔9
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں اپنے قرب کے لیے پیرِ کامل کا وسیلہ پکرنے کا حکم دیتاہے۔
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ قدس میں خشیت(ڈرو) اختیار کرو اور تقرب الی اللہ کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اُس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔
اکابرینِ امت اور مفسرین متقدمین کے نزدیک وسیلہ سے مراد توسلِ مرشد ہے۔ نیز دیگر اکابرینِ امت کی طرح حضرت شاہ عبدالعزیز ، حضرت عبدالرحیم اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہم نے بھی وسیلہ سے یہی معنی مراد لیے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اپنی کتاب قول الجمیل میں اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اُن کے پاس دومولوی صاحبان نے آکر ضرورتِ شیخ کا ثبوت طلب کیا آپ نے یہی آیت ’’وابتغو االیہ الوسیلہ‘‘ پڑھ کر فرمایا وسیلہ سے مراد یہاں پیر کی ذات ہی ہے۔ انہوں نے کہا نہیں آنحضرت ﷺ مراد ہیں آپ نے فرمایا ان کا ذکر وتعلق ’’الذین آمنو‘‘ میں آچکا ہے پھر انہوں نے فرمایا کہ وسیلہ سے مراد اعمالِ صالحہ ہیں۔ آپ نے فرمایا اعمال صالحہ’’اتقواللہ‘‘ میں آگئے اسلئے وسیلہ سے مراد پیر ہی ہے اور کچھ اس کے معنی نہیں بن سکتے۔ مولوی صاحبان لاجواب ہوکر چلے گئے۔10
رسول اللہ ﷺ نے بہت سے معاملات میں صحابہ کرامؓ سے بیعت لی۔ جن میں بیعت عقبیٰ اولیٰ، بیعتِ عقبیٰ ثانیہ، بیعتِ رضوان وغیرہ شامل ہیں۔ عورتوں سے چوری نہ کرنے، زنا سے بچنے، مرنے والوں پرنوحہ نہ کرنے اور اپنے خاوندوں کی تابعداری کرنے کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے بیعت لی۔ اس کے علاوہ آپﷺ نے ہجرت،جہاد، اقامتِ ارکان اسلام (صوم، صلوٰۃ ،حج، زکوٰۃ) وغیرہ کی ادائیگی پر بھی بیعت لی۔ چنانچہ جوفعل نبی مجسم ﷺ نے کتاب وحکمت کی تعلیم، تزکیہ نفوس، تصفیہ قلب کے لیے کیا وہ صوفیہ کرام کے لیے سنت ٹھہرا۔ 
عکسِ شیر ربانی ؒ فرمایا کرتے تھے۔
’’پیرسوبار بھی کہے کہ تو میرا مرید نہیں تو بیعت نہیں ٹوٹتی لیکن مریداگر ایک بار بھی کہہ دے کہ تو میرا پیر نہیں تو بیعت ٹوٹ جاتی ہے‘‘۔11
آپ تمام سلاسل کے صوفیہ کرام کا بے حداحترام کرتے تھے اس لیے کسی دوسرے پیر کے مرید کو بیعت نہیں کرتے تھے، نہ ہی آپ عورتوں کو مرید کرتے تھے بلکہ نجی محفل میں عورتوں کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ آپ فرمایا کرتے تھے: