نور اسلام - نومبر-2018

(حضرت میاں خلیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ) > صفحہ 3

 

لباس:

آپؒ اعلیٰ حضرت شیرربانی ؒ کی طرح سفید رنگ کی لمبی آستینوں والا کرتہ پہنا کرتے تھے۔ آپ سفید رنگ کا تہبند اور شلوار بھی پہنا کرتے تھے۔ آپ سنت کے مطابق سفید رنگ کی پانچ کلیہ ٹوپی پہنا کرتے تھے جوکہ آستانہ عالیہ شرقپورشریف کی پہچان ہے۔ ٹوپی کے اوپر آپ سفید رنگ کا عمامہ شریف استعمال کرتے تھے۔ آپ ؒ سنت کے مطابق تمام لباس کے پہننے کی ابتدا ء دائیں طرف سے کرتے اور اُتارنے کی ابتداء بائیں طرف سے کرتے۔ آپ کو سیاہ جوتے سے سخت نفرت تھی۔ انگریزی جوتے نہیں پہنتے تھے۔ عموماً سنت کی پیروی میں سادہ چپل پیلے رنگ کی پہنتے۔ آپ اعلیٰ حضرت شرقپوریؒ کی طرح تصویر بنوانے کے سخت مخالف تھے۔ اکثر اُن محفلوں سے اُٹھ کر چلے جاتے جہاں کیمرے اور ویڈیو کا اہتمام ہوتا۔ لیکن میڈیا والے پھر بھی آپ کی تصویر اور ویڈیو بنالیتے۔ 

طعام وقیام :

آپ اپنے جدِ امجد اعلیٰ حضرت شیرِ ربانی ؒ کے معمولات پر عمل پیرا ہوتے کیونکہ وہ ہرکام میں سنت اور شریعت پر عمل کرتے تھے۔ طعام سے پہلے آپ ہاتھ دھوتے اور بسم اللہ شریف پڑھ کر کھانا شروع کرتے اور کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے بعد تولیے یا کپڑے سے صاف نہ کرتے۔ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کپڑے سے یا کبھی کبھار تولیے سے صاف کرلیتے۔ سنت کے مطابق کھانا دایاں ہاتھ سے کھاتے اور دائیں گھٹنا کھڑا کرکے اور بایاں گھٹنا بچھا کر کھاتے۔ آپ ’’کلو واشربو‘‘ پر عمل کرتے ہوئے ہرقسم کی غذا کھالیتے لیکن آپ سادہ غذا پسند فرماتے ۔ کھانا کھانے کے بعد آپ برتن کو اچھی طرح صاف کرتے۔ کھانا تناول کرنے کے بعد آپ مسنون دُعا مانگتے۔

آدابِ شیخ:

ڈاکٹر نذیر احمد شرقپوری اپنی کتاب کے صفحہ 15پر رقمطراز ہیں۔
’’حضرت پیر میاں خلیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ بڑے باادب تھے۔ راقم کی موجودگی میں آپؒ کے والد گرامی قدر فخر المشائخ صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی دامت برکاتہم العالیہ نے آپ کو بلایا۔ آپ ؒ تقریباً15منٹ تک خاموشی سے اپنے والد گرامی قدر کے سامنے باادب کھڑے رہے اور آپ کی باتیں نہایت غور سے سنتے رہے۔ یہ ہے والدین کی تربیت اور بزرگوں کا ورثہ‘‘۔15
نبی کریم ﷺ کی امت کے سب سے عظیم صوفی حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ ؒ نے اپنے مکتوبات کے دفتر اول کے مکتوب نمبر 292میں آدابِ مرشد کے بارے تفصیل سے لکھا ہے۔
’’اگر عنایتِ خُداوندی سے کسی طالب کو کامل اور کامل کرنے والے پیر تک رسائی ہوجائے تو چاہیے کہ اس کے وجود شریف کو غنیمت جانے اور اپنے آپ کو مکمل طور پر اس کے سپرد کردے اور اپنی نیک بختی کو اس کی رضامندی کے کاموں میں جانے اور اپنی بدبختی کو اس کی ناراضگی میں خیال کرے اور اپنی ہرخواہش کو اس کی رضاکے تابع کردے۔‘‘
بعض آداب اور ضروری شرائط بیان کی جاتیں ہیں گوشِ ہوش سے سُنیں۔ 
1۔ طالب کو چاہیے کہ اپنے دل کے چہرے کو تمام اطراف سے موڑ کر اپنے پیر کی طرف متوجہ کرے۔
2۔ پیر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نوافل واذکار میں مشغول نہ ہو اور اس کے غیر کی طرف التفات نہ کرے اور اپنے آپ کو کلیتہً اس کی طرف متوجہ کرکے بیٹھے فرض اور سنت نماز کے علاوہ کوئی نماز اس کی مجلس میں ادا نہ کرکے۔
3۔ جہاں تک ممکن ہو ایسی جگہ نہ کھڑا ہوکہ مرید کا سایہ پیر کے کپڑوں پر یا پیر کے سائے پر پڑے۔
4۔ پیر کی جائے نماز پر پاؤں نہ رکھے اور اُس کے وضوخانہ میں وضو نہ کرے ۔
5۔ اس کے خاص برتنوں کو استعمال میں نہ لائے اور اس کے سامنے نہ پانی پیئے نہ کھانا کھائے اور نہ کسی سے بات کرے۔ 
6۔ پیر کی عدم موجودگی میں اس طرف پاؤں نہ کرے جس طرف پیر ہو نہ اس طرف منہ کرکے تھوکے۔
7۔ جو کچھ پیر سے صادر ہو اُسے درست جانے اگرچہ درست نظر نہ آئے کیونکہ پیر جو کچھ کرتا ہے الہام اور اذن سے کرتا ہے۔ لہذا ایسی صورت میں اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔
8۔ تمام کلی وجزوی امور میں اپنے پیر کی اقتداکرے ۔کیا کھانے میں کیا پینے میں اور کیا سونے میں بلکہ ہر نیک کام میں۔
9۔ نماز کو اپنے پیر کی طرح اداکرنا چاہیے اور فقہ کو اس کے عمل سے اخذ کرنا چاہیے۔
10۔ پیر کی حرکات وسکنات میں اعتراض کو قطعاً گنجائش نہ دے ۔چاہے رائی برابر بھی اعتراض ہوکیونکہ اعتراض کا نتیجہ سوائے محرومی کے کچھ نہیں۔ تمام مخلوق میں سب سے زیادہ بے سعادت وہ شخص ہے جو اس گروہ اولیاء میں عیب نکالے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بلائے عظیم سے نجات دے۔
11۔ اپنے پیر سے خوارق کا مطالبہ نہ کرے۔ اگرچہ یہ طلب دل میں وسوسے اور خطرے کی شکل میں ہو۔
12۔ اگر دل میں کوئی شبہ آجائے تو بلا توقف پیر کی خدمت میں عرض کرے اور اگر حل نہ ہوتو اپنی کوتاہی تصور کرے۔
13۔ اپنے کشفوں پر اعتماد نہ کرے بلکہ جو کچھ طالب پر منکشف ہو پیر کی خدمت میں عرض کرے۔
14۔ بے ضرورت اور بلااجازت پیر سے الگ نہ ہو کیونکہ اپنے لیے پیر کے غیر کواختیار کرنا عقیدت کے منافی ہے۔
15۔ اپنی آواز کو پیر کی آواز سے بلند نہ کرے اور اونچی آواز سے پیر کے ساتھ گفتگو نہ کی جائے کہ یہ بے ادبی ہے۔
16۔ ظاہر اور باطن میں فتوح اور کشائش حاصل ہوتو اپنے پیر کے توسط سے جانے۔ اگردوسرے مشائخ سے فیض پہنچا ہے تو اسے بھی اپنے پیر کی طرف سے جانے ۔حق سبُحانہ لغزش قدم سے بچائے اور پیر کے ساتھ حسُنِ اعتقاد اور اُس کی محبت پر قائم رکھ۔ بحرمتِ سید البشر علیہ وعلی آلہٖ الصلوت التسلیمات۔
پھر فرمایا شیخِ مقتدا کہربا کی طرح ہے جس کسی کو اُس سے مناسبت ہوگی خس وخاشاک کی طرح اُس کے پیچھے دوڑتا آئے گا اور اپنا حصہ اُس سے پائے گا اور جو شخص مناسبت نہیں رکھتا وہ اُن کے کمالات کی دولت سے محروم ہے۔ اگر ہزار معجزے خوارق دیکھے ۔ ابوجہل اور ابولہب کو اسی معنی کی دلیل بنانا چاہیے۔ 16

خانقاہی نظام:

اعلیٰ حضرت شیرِ ربانی میاں شیر محمد شرقپوری نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ نے شرقپورشریف میں ایک بے مثل خانقاہی نظام کی بنیاد رکھی۔1928ء ؁ میں آپ کے وصال کے بعد آپ کے جانشین وبرادر اصغر حضرت ثانی لاثانی میاں غلام اللہ شرقپوری نقشبندی مجددی رحمتہ اللہ علیہ ؒ نے اس نظام کی باگ ڈور سنبھالی۔1956ء ؁ میں آپؒ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادے قیوم العالم فخر المشائخ حضرت میاں جمیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی ؒ نے اس نظام کو چلایا اور اُسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ جب آپؒ نے اپنے صاحبزادے حضرت میاں خلیل احمد شرقپوری نقشبندی مجددی ؒ کو1972ء ؁ میں خلافت سے نوازا تو آپ نے آستانہ عالیہ کے نظام کواُن کے سپرد کردیا آپ فخر المشائخ بین الاقوامی سطح کے صوفی تھے۔ آپ مدینہ پاک میں بھی دوتین ماہ رہتے تھے پھر پورے مشرق وسطیٰ ترکی وغیرہ اسلامی ممالک کے دورے کرتے تھے۔ آپ نے یورپ کے دورے شروع کیے اور ہرسال انگلینڈ کا بھی تبلیغی دورہ کرتے۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ عطائی وسیلے سے دُنیا کا نظام چلاتا ہے۔ لہذا اپنے والد صاحب کی مصروفیت کے پیشِ نظر آپ نے آستانہ عالیہ کا نظام سنبھال لیا۔
عکسِ شیرِ ربانی صاحبزادہ میاں خلیل احمد شرقپوریؒ گھریلو انتظامات بھی بڑے احسن طریقے سے چلاتے۔ آپ کے دادا جان حضرت ثانی لاثانی ؒ شرقپورشریف کے نمبردار تھے۔ لیکن جب آپ کو آستانہ عالیہ کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں تو آپ نے نمبرداری چھوڑ دی۔ آپ کی چونیاں میں دومربع اراضی کے علاوہ اردگرد کے دیہات میں بھی زمین تھی اس طرح تقریباً7مربع آپ کی اراضی تھی جس کا انتطام آپ خود کرتے ۔ گو آپ نے مزارعین کو زمین حصہ داری پر دی تھی لیکن آپ بذاتِ خود زمین کی نگرانی کرتے۔ شرقپورشریف کے مغرب کی جانب آپ کا ڈیرہ ہے۔ جہاں آپ نے بھینسیں ، گائیں اور دوسرے مویشی پال رکھے ہیں۔ اُن کی دیکھ بھال بھی آپ خود کرتے عکسِ شیرِ ربانی حضرت میاں خلیل احمد صاحبؒ کے وصال کے بعد یہ ڈیوٹی آپ کے بیٹے اور سجادہ نشین حضرت میاں ولید احمد شرقپوری نقشبندی مجددی نے سنبھال لی ہے۔ شرقپورشریف سے ہرسال محرم الحرام کے مہینے میں پنجاب کے صوفیہ کرامؒ کے مزارات کی زیارت کیلئے قافلہ ترتیب دیا جاتا ہے جس کی قیادت آپ اپنے والد صاحب کے حکم سے کرتے۔ یہ قافلہ اب بھی5محرم الحرام کو روانہ ہوتا ہے اور10محرم الحرام کو واپس آجاتا ہے۔ اب اس قافلے کی قیادت حضرت میاں ولید احمد صاحب کرتے ہیں۔

کرامات:

مشائخ عظام اور علمائے اہلِ سنت وجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ کرامت کا ظہور ولی اللہ سے جائز ہے۔ بشرطیکہ وہ احکامِ شریعت کی پابندی کرتا ہو۔ کرامت اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک کرشمہ ہے جس کا ظہور شریعت کے کسی اصول کے خلاف نہیں ہے۔ کرامت کسی بھی ولی کی صداقت کا ثبوت ہے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کشف المحجوب میں باب ’’کرامت کے ثبوت کے بیان میں ‘‘ صفحہ606پر تحریر فرماتے ہیں۔
’’کرامت ایک ایسا مافوق العادت فعل ہے جو پابندی شریعت سے وجود میں آتا ہے اور وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کی بدولت بطریق استدلال حق وباطل میں تمیز کرسکے وہ بھی ولی ہے اور بعض اہلِ سنت کہتے ہیں کہ ولی سے کرامت جائز ہے نہ کہ معجزہ ۔مثلاً دُعا کا قبول ہونا اور مراد پانا جیسے کام جو عام طور پر وجود میں نہیں آتے۔۔۔۔۔۔ہم نہیں کہتے کہ ولی سے معجزہ سرزد ہوتا ہے بلکہ جو خرق عادت فعل ولی سے سرزد ہوتا ہے اسے کرامت کہا جاتا ہے اور جونبی سے سرزد ہو وہ معجزہ کہلاتا ہے۔‘‘17
قرآن کریم میں اولیاء کرام کی کرامات کے ثبوت ملتے ہیں۔ 
سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر37میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ترجمہ: جب بھی جاتے ذکریا ؑ مریم ؑ کے پاس اس کی عبادت گاہ میں تو موجود پاتے اس کے پاس کھانے کی چیزیں بولے اے مریم ؑ ! کہاں سے تمہارے لیے آتا ہے یہ رزق مریم بولیں یہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے آتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب ‘۔‘
حضرت پیر کرم شاہ الازھریؒ تفسیر ضیاء القرآن کی جلد اول میں اس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اس سے علمائے اہلِ سنت نے اولیاء کرام کی کرامتوں کا برحق ہونا ثابت کیا ہے کیونکہ حضرت مریم ؑ نبی نہ تھیں بے موسم کے پھلوں کا آپ کے پاس پایا جانا آپ کی کرامت تھی۔ پھر حضرت ذکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے حجرے میں کھڑے ہوکر اولاد کی دُعا کی جس کی خوشخبری فرشتوں نے حضرت یحییٰ ؑ کی صورت میں دی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مبارک مکان میں مبارک وقت میں کسی اللہ کے محبوب ولی کے پاس کھڑے ہوکر جو دُعا کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے اُسے منظور کرتا ہے۔18
سورہ نمل کی آیات نمبر38سے40میں اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک درباری (ولی اللہ)کی کرامت بیان کی ہے جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئی تو آپ نے اپنے درباریوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون ملکہ بلقیس کے تخت کو اُس کے پہنچنے سے پہلے لاسکتا ہے ایک طاقتور جن اُٹھا اور دست بستہ عرض کرنے لگا کہ اگر اس خادم کو حکم ہو تو اس مجلس کے برخاست ہونے سے پہلے اُسے لے آؤں گا اگرچہ وہ بڑا بھاری بھر کم ہے اور مسافت بھی ڈیڑھ ہزار میل سے زیادہ ہے لیکن میں طاقتور ہوں اور ایسا کرسکتا ہوں اور میں امین بھی ہوں جو قیمتی جواہرات اس میں جڑے ہوئے ہیں اُن میں ہرگز خیانت نہ کروں گا۔ آپ نے اس کی پیشکش کو قبول نہ فرمایا۔ چنانچہ ایک اور آدمی اُٹھا جس کے پاس کتاب کا علم تھا۔ اُس نے مودبانہ گذارش کی کہ اگر مجھے اجازت ہوتو آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت کو وہاں سے اُٹھاکر آپ کے قدموں میں لاکر رکھ دوں۔ آپ نے اجازت مرحمت فرمائی تو آنکھ جھپکنے سے پہلے تخت وہاں موجود تھا۔ محققین نے لکھا ہے کہ اس ولی کا نام آصف بن برخیا تھا۔ ان آیات سے کرامات اولیاء کا بیّن ثبوت مل گیا اور یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک امتی’’ الکتاب‘‘، کے علم کی برکت سے ایسا ناممکن کام کرسکتا ہے تو سید الانبیاء والمرسلین ﷺ کا امتی جو الکتاب المبین کا عالم اور اُس کے اسرارِ ومعارف سے آگاہ ہے اُس سے کرامات کا سرزد ہونا کیا مشکل ہے۔19
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت سلیمان علیہ السلام جوکہ ایک عظیم نبی تھے کیا وہ خود تختِ بلقیس خودنہیں لاسکتے تھے! یقیناًلاسکتے تھے ۔اس سے مقصود اولیاء کرام اور صوفیہ عظام کے کشف وکرامات اور روحانی طاقت کا ثبوت پیش کرنا تھا۔ آستانہ عالیہ شرقپورشریف کے عمر رسیدہ مرید یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ جب اعلیٰ حضرت میاں شیر محمد شرقپوریؒ سے اس کرامت کے بارے سوال کیا جاتا تو آپ فرماتے:
’’وہاں فنا یہاں بقا‘‘
یعنی آصف بن برخیا نے ملکہ بلقیس کے محل میں تخت کی نفی کی اور دربارِ حضرت سلیمان علیہ السلام میں اثبات کیا تو تخت چشم زدن میں اُدھر آگیا۔ علامہ اقبالؒ ے فرمایا
؂ کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اس طرح احادیث مبارکہ میں بے شمار واقعات ہیں جن میں اولیاء کرام کی کرامات کا ذکر ہے جس طرح معجزات میں سب نبی برابر ہیں لیکن اُن کے مراتب میں فرق ہے اس طرح نبی اور ولی خرق عادات میں مشابہ ہوسکتے ہیں لیکن اُن کے مراتب میں بہت فرق ہے۔ ولی نبی کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے ۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ کشف المحجوب میں ’’کرامت کے ثبوت کے بیان میں ‘‘ صفحہ607پر رقم طراز ہیں۔
’’یہ بات ناممکن ہے کہ ایک ولی کرامت کی بناء پر نبوت کا دعویٰ کرے کیونکہ ولایت کی شرط صداقت ہے اور ایک صادق کی طرف جھوٹا دعوۃ نبوت ناممکن ہے ۔ کاذب ولی نہیں ہوسکتا اور چونکہ ایک غیر نبی کیلئے دعوۃ نبوت کفر ہے لہذا ایک ولی کبھی بھی نبوت کا دعویٰ نہیں کرے گا۔ کیونکہ نبی آخرالزمان ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے۔ بلکہ ولی کی کرامت نبی کی نبوت کا ثبوت ہے۔ اس لیے کرامت اور نبوت کو مخلوط کرکے شک وشبہ کی نظرسے دیکھنے کی ضرورت نہیںَ جس طرح ایک نبی معجزہ کے ذریعے اپنی نبوت ثابت کرتا ہے ایک ولی بھی اپنی کرامت کے ذریعے اپنے نبی کی نبوت کو ثابت کرتا ہے اور اپنی ولایت کو بھی۔ پس سچا ولی وہی کرتا ہے جو سچا نبی کرتا ہے۔ ولی کی کرامت عین معجزہ نبی ہے۔‘‘20

استدراج:

ایسے خلافِ عادت امور کا اظہار جو شیطان یا جادو کے ذریعے کافروں کے ہاتھ پر ظاہر ہوں استدراج کہلاتا ہے۔صوفیہ کرام اور علمائے اہلسنت وجماعت اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ کافر کے ہاتھ پر افعال خرق عادات ظاہر ہوسکتے ہیں ۔ ایسے امور انسان کی آزمائش کے لیے ہوتے ہیں۔ مثلاً فرعون کی عمر چارسو سال تھی لیکن وہ کبھی بیمار نہ ہوا اور چڑھائی پر جاتا تو پانی اس کے پیچھے اوپر جاتا تھا جب وہ ٹھہر جاتا تو پانی ٹھہر جاتا اور جب وہ چلتا تو پانی بھی چلتا تھا لیکن اس وقت کے صاحبِ ایمان لوگ اُسے خُدا نہیں سمجھتے تھے۔ نمرود اور شداد کی بھی ایسی ہی مثالیں ہیں۔ آخری نبی جناب رسول خُدا ﷺ نے اپنی امت کو خبردار کیا کہ آخری زمانے میں دجال آئے گا اور خدائی کا دعویٰ کرے گا اُس کے دونوں اطراف دو پہاڑ ہونگے جو شخص اس کی بات نہیں مانے گا وہ اُس کوسزا دے گا۔ وہ مخلوق خُدا کو مارے گا اور زندہ بھی کرے گا اور تمام دُنیا میں اُسی کا حکم چلے گا لیکن صاحبِ ایمان اُسے خُدا نہیں مانیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ مجسم اور مرکب انسان کی طرح نہیں ہے۔ 
حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ جیسے جلیل القدر صوفی کو شیطان نے نور کا لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی تو آپ نے لاحول پڑھا اور شیطان بھاگ گیا۔ اسی طرح غیر مسلم لوگوں سے جو خلافِ عادت امور واقع ہوتے ہیں اُن میں شیطان اور خبیث ارواح کا دخل ہوتا ہے اس لیے انہیں استدراج کہا جاتا ہے۔21
حضرت صوفی محمدابراہیم قصوری ؒ اپنی کتاب ’’خزینہ معرفت‘‘ میں فرماتے ہیں
’’اکثرلوگ ایسے کاموں (خرق عادت) کو دیکھ کر اسے کرامات کہہ دیتے ہیں اور جس شخص سے ایسا فعل سرزد ہو اُسے ولی اللہ خیال کرتے ہیں۔ وہ اس لئے کہ عوام کو کرامت اور استدراج میں فرق کرنے کی تمیز نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے گمراہی میں پڑجاتے ہیں۔ کرامات اولیاء اللہ سے صادرہوتی ہیں اور استدراج کافر یا فاسق سے سرزد ہوتے ہیں‘‘۔22
صوفیہ کرام اور علمائے اہلِ سنت اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ نبی معصوم ہوتے ہیں لیکن ولی معصوم نہیں ہوتے بلکہ ولی محفوظ ہوتے ہیں۔ حضرت داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی رائے میں ولی اُس آفت سے محفوظ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ولایت کی نفی ہوجائے۔ یہ آفت ایمان کی نفی یعنی ارتداد ہے ۔ حضرت جنید بغدادی ؒ حضرت ابوالحسن نوریؒ ، حضرت حکیم ترمذیؒ اور حضرت حارث محاسبی ؒ اور بے شمار اہلِ حق کا مسلک یہ ہے کہ ولایت کی شرط اطاعت پر ہمیشگی ہے اور جونہی ولی سے کبیرہ گناہ سرزد ہوتا ہے وہ ولایت سے معزول ہوجاتا ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اور حضرت شاہ نقشبند سید بہاؤ الدین بخاریؒ سے بے شمار مخیر العقول کرامات سرزد ہوئیں دونوں صوفیاء نے حضرت عیٰسی علیہ السلام کی طرح مردے زندہ کیے لیکن ولی اور نبی کے مقام میں بہت بڑا فرق ہے ۔ حضرت داتا صاحبؒ کشف المحجوب کے صفحہ612پر لکھتے ہیں کہ ’’دراصل ولایت کی انتہا نبوت کی ابتداء ہے۔‘‘
دُنیا کے سب سے عظیم صوفی حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ مکتوب نمبر94جلد اول کے صفحہ259پر تحریر فرماتے ہیں۔
’’بعضوں نے اس بات کی توجیہہ میں کہا ہے کہ نبی کی ولایت اُس کی نبوت سے افضل ہے لیکن فقیر کے نزدیک اس قسم کی باتیں بے ہودہ معلوم ہوتی ہیں۔۔۔
۔۔۔۔انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تمام موجودات میں سے بہتر ہیں اور سب سے بہتر دولت اُنہی کو نصیب ہوئی اور ولایت نبوت کا جزو ہے اور نبوت کل ہے پس نبوت ولایت سے افضل ہے۔ خواہ ولایت نبی کی ہو یا ولی کی‘‘۔23
اولیاء اور صوفیاء ہمہ وقت کرامت کا اظہار نہیں کرتے۔ بلکہ چھپاتے ہیں لیکن انبیاء سے ہمہ وقت معجزات کا ظہور ہوتا رہا ہے اُن کے معجزات نبوت کے ثبوت اور دلائل ہیں اور ان سے امتیوں کو نبوت کا مشاہدہ کرایا جاتاہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ کی رائے میں سنت پر استقامت سب سے بڑی اور حقیقی کرامت ہے۔
معجزہ مقامِ نبوت کی شرائط میں سے ہے لیکن کرامت ولایت کے ارکان میں سے نہیں ہے۔ کرامات کی کثرت کسی ولی کے افضل ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ جیساکہ عوام الناس سمجھتے ہیں۔ اولیاء اور صوفیاء کی فضیلت قربِ الہٰی کے درجات پر منحصر ہے۔ افضل ترین ولی ایک ادنیٰ صحابی کے درجے کو نہیں پہنچتا حالانکہ بعض اولیاء سے جو کرامات ظہور میں آئیں ہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اُن کا سواں حصہ بھی ظہور میں نہیں آیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صرف نوروشن معجزے عطا کیے۔ 24
بعض ان پڑھ اندھی تقلید والے مرید اپنے پیر کے بارے مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور اُس کا موازنہ انبیاء سے کرنا شروع کردیتے ہیں یہ سخت بے ادبی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکتوبات میں تصوف کے ہرمسئلے کا حل موجود ہے۔ آپ مکتوبات کی جلد دوم میں اس بحث کو سمیٹتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
’’آپ نے پوچھا تھا کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سالک عروج کے وقت اپنے آپ کو انبیاء کے اصحاب کرام کے مقام میں پاتا ہے۔ جو انبیاء کے بعد بالاتفاق تمام بنی آدم سے افضل ہیں۔بلکہ بسااوقات اپنے آپ کو انبیاء کے مقامات میں پاتا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔اس کا جواب یہ ہے کہ ادنیٰ شخص کا اعلیٰ لوگوں کے مقامات میں پہنچنا کبھی اس طرح ہوتا ہے جس طرح فقیر اور محتاج دولتمندوں کے دروازوں اور منعموں کے خاص مکانوں میں جانکلتے ہیں تاکہ اُن سے اپنی حاجت طلب کریں اور اُن کی دولت ونعمت سے کچھ مانگیں وہ بہت ہی بے وقوف ہے جو اس طرح جانے کو برابری اور شرکت خیال کرے۔ ۔۔۔
کیونکہ نبوت میں شریک ہونا اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ برابری کرنا کفر ہے ایسے شیخین کی افضلیت کا حال ہے۔ جو صحابہ اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہوچکی ہے۔ ‘‘25
صاحبزادہ میاں خلیل احمد شرقپوری ؒ مستجاب الدعوٰت ولی تھے اور سراپا کرامت تھے۔ آپ سے بے شمار کرامتوں کا ظہور ہوا۔ لیکن ہم آپ کی صرف چند کرامات پر اکتفا کریں گے۔