حضرت صاحب قبلہ شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت تھی کہ جب کبھی کسی دنیاداربڑی شخصیت کی آمدکاعلم ہوتاتوآپ اس کے آنے سے پیشتر ہی بیٹھک سے اٹھ کرچلے جاتے اوراس کی آمدکے بعد تشریف لاتے۔ یہ اس لیے کہ اس دنیادار کی تعظیم کے لیے آپ کواٹھنانہ پڑے۔ ایک دن ڈاکٹرمحمداقبال ، سرمحمدشفیع مرحوم جومیاں صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے خالہ زاد تھے کے ہمراہ شرقپورشریف حاضرہوئے۔ آپ ان کے آنے سے پہلے ہی بیٹھک سے اٹھ گئے تھے۔ ڈاکٹرصاحب آئے اوربیٹھک میں بیٹھ گئے۔ جب حضرت صاحب قبلہ تشریف لائے توڈاکٹرصاحب تعظیماًاٹھ کھڑے ہوئے۔ آپ نے ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی فرمایا!’’اخّاہ!آج ہمارے جیساکون ہے جبکہ ہمارے ہاں خود’’اقبال‘‘(ذومعنی لفظ)آگیاہے اور پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی سے فرمایا:’’ارے میاں!جاؤحجام کوبلالاؤ۔ ہماری بھی ڈاڑھی مونچھیں مونڈجائے۔ ہمارے ہاں اقبال جوآگیاہے‘‘اورآپؒ نے سراقبالؒ کی انگریزی وضع اورلباس پرسرزنش کی۔ ان باتوں کاڈاکٹرصاحب پربڑااثرہوااوران پررقت طاری ہوگئی۔
علامہ صاحب نے دردبھرے انداز سے عرض کی’’حضور!آپ عاشق رسول ہیں۔گناہوں سے نفرت ہونی چاہیے۔گناہگارسے نہیں‘‘۔
اس پرحضرت صاحب قبلہ میں نرمی آگئی اورآپ ان کے پاس بیٹھ گئے۔ بعدازاںآپ نے علامہ صاحب کی خاطرتواضع کے ساتھ انہیں تلقین بھی کی۔
حضرت صاحب سے ملاقات کے بعد علامہ صاحب نے دنیاوی لہوولعب ترک کردیے اوراکثرلوگوں نے انہیں کہتے سنا’’میں بڑے بڑے فقیروں جابر اورپروقار شخصیتوں کے پاس پہنچا لیکن جورعب ودبدبہ میں نے اس مردِ قلندر میں دیکھا ہے وہ انہی کاحصہ ہے‘‘۔
(فضل احمدمونگہ شرقپوری:حدیث دلبراں:ناشرمونگابرادران شرقپورشریف
(شیخوپور)[1993ء]، ص۔120۔121)