آپ اخلاق رحمۃًللعٰلمین ﷺ کانمونہ تھے۔ آپ نے ساری زندگی حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر(چل کر)گزاری۔ سنّت نبوی ﷺ کوہمیشہ ملحوظ رکھا۔ اسی لیے ہروقت دوزانو بیٹھتے اورمجلس میں احباب کوبھی دوزانو بیٹھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ یہ آپ کی خاص بات تھی کہ آپ کھاناکھلانے کے وقت دسترخوان کے وسط میں تشریف فرماہوتے اور کھانے والوں پریکساں نظر رکھتے۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھلائے جاتے۔ سب کوسنّت مصطفوی ﷺ کے مطابق بٹھایا جاتا۔
کھانے کے بعد مسنون دعا مانگی جاتی۔ یہاں ایک اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ اپنے احباب کو کھاناکھلانے کے بعدآپ کتّوں کوبھی کھانا کھلایاکرتے تھے جوکہ آپ کے دروازہ پرپہلے ہی موجود ہوتے تھے۔ آپ ہرکتّے کے آگے روٹی رکھتے جاتے تھے اور ہرایک کتّا اپنے آگے سے اٹھاکرکھاتاتھا۔ کسی کی ہر گز مجال نہ تھی کہ دوسرے کتّے کے آگے سے اٹھاکرکھالے۔ جب کوئی نیا کُتّا آجاتا اور وہ کِسی دوسرے کتّے کے آگے سے اٹھاکرکھانے لگتاتوآپ اسے ڈانٹتے اورفرماتے’’کِسی دوسرے کاحق کھاتے تمہیں شرم نہیںآتی‘‘؟پھر تویہ حالت ہوتی تھی کہ وُہ نیا کتّا بھی کسی دوسرے کے آگے سے اٹھا کرنہ کھاتاتھا اور جب دوسرا دن آتاتووہی شرارت پسند کتّا نہ صرف اپنے آگے سے کھاتابلکہ پھر دوسری طرف نظر تک نہ اٹھاتاتھا۔ یہ تھا اثر آپ کی زبان مبارک میں کہ جانور بھی فوراًسرجھکا دیتے تھے۔
جانوروں کا بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے رات کو اپنی والدہ ماجدہ سے فرمایاکہ’’مجھے آج حلوا تیارکردیں‘‘۔ جب آپ کی والدہ ماجدہ نے حلوا تیار کرکے ایک بڑے برتن میں ڈال کر آپ کے سامنے رکھاتوآپ نے وُہ اٹھاکر باہر دروازے پرکھڑے ہوئے کتّے کوکھلادیا۔ آپ کی والدہ محترمہ نے فرمایا:’’بیٹا! تم نے کیوں نہ کھایا؟کتّے کوکیوں ساراکھلادیا؟‘‘ توآپ نے فرمایا:’اماں جان!مجھے شرم آئی کہ اللہ کے بھیجے ہوئے مہمان کونہ کھلاؤں اورخودکھالُوں‘‘۔
آپ نے ایک گدھے کوبوجھ اٹھائے ہوئے دیکھاتوفرمایا:
’’سوہنیاں!تُوں بھارچُکی پھرناایں‘‘ اورآپ اس کو مٹھیاں بھرنے لگے اور پھر شفقت سے اس کے بدن پر ہاتھ پھیرتے اور اس کی کمر تھپتھپاتے رہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں: ’’مَیں لاہور سے شرقپور آرہا تھا۔ جب کشتی سے اترا تو سامنے ایک کتّا اپنی دونوں ٹانگیں اٹھاکر کھڑاہوگیاجوکہ اپنی زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ’’مجھے گلے لگالو۔ مَیں نے اُسے گلے سے لگالیا‘‘۔ ذراآپ اندازہ لگائیں کہ مخلوقِ خدا سے آپ کو کس قدر محبت تھی۔
آپ سنّت نبوی ﷺ پر اس قدرقائم تھے کہ آپ اپنی مجلسِ وعظ ونعت خوانی میں کِسی داڑھی منڈھانے والے یا حد سے زیادہ کترانے والے کوکچھ سنانے کے لیے کھڑا نہ ہونے دیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کئی آدمی جب دوبارہ شرقپورشریف میں حاضر ہوتے توباشریعت ہوتے۔
یہی طریقہ حضرت قبلہ ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ برادرِ حقیقی حضرت میاں شیر محمدصاحب رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں رہا اورآج تک یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔
ایک شخص جس کانام محمد علی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس نے جمعہ کے موقعہ پرایک دفعہ نعت شریف پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ کئی آدمیوں نے حضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی سفارش بھی کی لیکن آپ نے یہ فرماتے ہوئے نعت پڑھنے کاموقعہ نہ دیاکہ مَیں سنّت نبوی ﷺ اوراپنے برادرمحترم قبلہ عالم حضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات کے خلاف نہیں کرسکتا۔ وُہ شخص کہتاہے کہ اس پر اس بات کااتنااثرہواکہ اس نے نیّت کرلی کہ اب داڑھی نہیں منڈھواؤں گا۔ چنانچہ اس نے داڑھی رکھ لی اورجب تھوڑے عرصہ کے بعد وہ عرس شریف کے موقعہ پرحاضر ہوا توحضرت ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسے دیکھ کربہت مسرورہوئے اورسب سے پہلے اسے ہی نعت سنانے کا موقعہ عنایت فرمایااور آپ کی دعا سے اسے نعت پڑھنے میں وہ لطف آتا ہے جوکہ اس سے پہلے کبھی نصیب نہ ہواتھا۔
نماز کے وقت بھی آپ کسی داڑھی منڈھوانے والے یاحدسے زیادہ کترانے والے کو پہلی صف میں ہرگز نہ کھڑا ہونے دیتے تھے ۔ چاہے کوئی کتنابڑا آفیسر ہی کیوں نہ ہو۔ آپ سنّت نبوی ﷺ کامجسم نمونہ تھے۔ غرضیکہ آپ کی ہرہر اداحضورنبی کریم ﷺ کی سیرت کانمونہ پیش کرتی تھی۔
آپ بڑے غریب نوازتھے۔ جب آپ بازارسے گزرتے تونگاہیں نیچی رکھتے۔ گوخوداس حالت میں گزرتے مگر لوگوں کاحال آپ پرعیاں ہوجاتاتھا۔ جس دوکاندار یاچھابڑی والے کے پاس زیادہ سودا پڑا دیکھتے جسے دن میں کوئی گاہک نہیں اٹھاتاتھاتوآپ اس دوکاندارسے سارے سودے کے دام دے کر خرید لیتے جو کچھ عقیدت مند لوگوں سے نذرانہ حاصل ہوتاوُہ آپ اپنی مجلس برخاست ہونے سے پیشتر ہی غرباء میں تقسیم فرمادیتے تھے۔ روزانہ ہزاروں تھیلیاںآپ کی دست بوسی کے لیے تڑپاکر تی تھیں لیکن آپ اتناقبول فرماتے جتناکہ حاجت مندوں کی حاجت روائی کے لیے کافی ہوتاتھا۔جوکچھ پاس ہوتاسارے کاساراغریبوں، بیکسوں،یتیموں اور بیواؤں کی امداد میں صرف فرمادیتے تھے۔علاوہ ازیںآپ ہمسائیوں کے حقوق ادافرماتے تھے اورآج ہم ہیں کہ ہمیں اپنے اعزاء واقرباء کابھی پتہ تک نہیں کہ وُہ کِس حال میں رہتے ہیں۔
حضور علیہالصلوٰۃ والسلام کی حدیث پاک ہے:
’
’جومسلمان خود توپیٹ بھرکر کھائے اوراس کاہمسایہ بھوکارہے، وُہ ایمان سے خالی ہے‘‘۔
اَب غورکامقام ہے کہ ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان پر کِس حد تک کار بند ہیں۔ سوچیے اور خوب سوچیے کہ کل بروزقیامت اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم محمد مصطفےٰ ﷺ کے سامنے کیاجواب دیں گے؟افسوس کہ ہم نے اپنے آپ کوخود ہی ہلاکت میں ڈال دیا اور اپنے اسلاف کے ارشادات کوبھول کر نئی تہذیب کے دِلدادہ ہوگئے ہیں مگر ہم نے ذرابھی نہ سوچاکہ’’نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے‘‘۔
اللہ تعالیٰ حضور ﷺ کے اس بہادر شیر، حضرت قبلہ میاں شیرمحمدصاحب شرقپوری رحمۃاللہ علیہ کے صدقہ میں ہمارے حال پر مہربانی فرماکر ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے۔
آپ اپنی تعریف کسی کی زبان سے ہرگز نہ سننا پسندکرتے تھے۔اگرکوئی شخص آپ کی تعریف کرتا تو آپ کاچہرہ سُرخ ہوجاتاتھااوردیکھنے والے پر ایسا رُعب طاری ہوتاجوکہ بیان سے باہرہے۔ آپ قول کے پکے ،تدبُّر اور ثابت قدم تھے۔ جس بات کااظہارکرتے اس کوپابندی سے پوراکرتے۔ جب کِسی سے ملتے توپہلے آپ السَّلامُ علیکُم کہتے۔ آپ بناوٹی پیروں اور ملنگوں سے نفرت فرماتے تھے۔ جب کبھی آپ ایسے بناوٹی قسم کے آدمی کودیکھتے توآپ کاچہرہ اورآنکھیں غصہ کی وجہ سے سُرخ ہوجایاکرتی تھیں۔ لیکن پھربھی آپ درگذرفرماتے تھے اور ایسے طریقہ سے اسے سمجھاتے کہ سننے والے پرفوراً اثرہوجایاکرتاتھا۔ جب آپ بازارسے گزرتے توآپ کی نگاہیں نیچی ہواکرتی تھیں۔ لیکن پھربھی آپ کارُعب بازاروالوں پر اس قدر چھاجاتا تھاکہ خلافِ شریعت لوگ اِدھر اُدھر چھپ جایاکرتے تھے اور مارے ڈرکے کانپتے تھے۔ لیکن نگاہ نیچی ہونے کے باوجود آپ پر سب حال ظاہرہوجاتاتھااورآپ مجلسِ وعظ میں لوگوں کی عام برائیوں کاذکرفرماتے تھے۔ کِسی شخص کانام لے کر رسوانہ کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سب کی اصلاح ہوجاتی تھی اورمخصوص شخص ذلت وخواری سے بچ کر راہِ راست پر آجاتاتھا۔ شہر کے لوگ آپ کی خدمت میں اپنے جھگڑوں کافیصلہ کروانے آتے تھے۔ آپ فوراًفیصلہ فرمادیتے جسے فریقین بخوشی تسلیم کرلیتے تھے۔ ہربات کچہریوں میں لے جانے سے منع فرماتے تھے بلکہ اس پرسختی سے عمل پیراہوتے اور فرماتے کہ اپنے فیصلے شریعت کے مطابق خودکرلیاکرو۔ کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالےٰ کا ارشاد ہے: ’’فَانِْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئیٍٍٍ فردُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ ہ ترجمہ:پس اگر تُم کِسی معاملہ میں جھگڑا کربیٹھو تواس کو اللہ اور رسُوْل کی طرف رجوع کرو ۔ ‘‘آپ فرماتے کہ کچہریوں میں جاکر ایمان نہ گنوایاکرو۔
یہ آپ کی صفت تھی کہ کوئی آپ کی مجلس سے کھائے پئے بغیر واپس نہ ہوتاتھا بلکہ جوکچھ پھل اورمیوہ جات آپ کے پاس آتے تھے وُہ سب حاضرین میں تقسیم فرمادیتے تھے۔ سوال کرنے اورمانگنے سے سخت نفرت کرتے تھے۔
حاجی کریم بخش صاحب شرقپوری کابیان ہے کہ ایک دفعہ مولوی احمددین صاحب ساکن موضع پادشاہانی نے مسجد ٹاہلی والی شرقپورشریف سوال کیا۔ حضرت قبلہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کوپتہ چلاتوآپ نے مولوی صاحب کوبلاکر فرمایا:’’تُم کوجتنے روپے مسجد میں سوال کرنے سے ملے ہیں اتنے مجھ سے لے لیاکرولیکن آئندہ سے مسجد میں سوال نہ کیاکرو‘‘۔مولوی صاحب پراس بات کا اتنا اثرہوا کہ آپ کے معتقدہوکر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے لگے اور سوال کرناچھوڑدیا۔
آپ کے وسیلہ سے کئی بے روزگار لوگ برسرِ روزگارہوگئے۔ کئی ایک کو آپ نے ملازمت دلوادی۔ کچھ آدمیوں نے مزدُوری کرنی شروع کردی۔ آپ ہرکام میں میانہ روی اختیارکرتے اور اکثریہ حدیث مبارک آپ کی زبان فیض ترجمان پر جاری رہتی تھی: ’’خَیْرُالْاُمُوْرِ اَوْ سَطُھَا‘‘۔
ترکِ دنیا سے منع فرماتے تھے۔ صرف یہ ارشاد فرمایاکرتے تھے کہ دین کو دنیا پر ترجیح دو۔ انگریزی تہذیب وتمدّن کے آپ سخت خلاف تھے۔ آپ خود سادہ زندگی بسرفرماتے تھے اوردوسروں کو بھی سادہ زندگی بسرکرنے کی تلقین فرماتے تھے۔ انگریزی لباس سے خاص طورپر منع فرماتے تھے اور اکثر فرمایاکرتے تھے کہ جب سے ہم نے انگریزی تہذیب وتمدّن کواپنالیاہے۔ ہم پرخیروبرکت کے دروازے بندہوگئے ہیں اوراس تمدّن نے ہمیں دین سے بیگانہ کردیاہے۔اِسی لئے ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ ہماری دعاؤں کے پَر ٹُوٹ گئے ہیں اورتمام دعائیں رستے ہی میں رُک جاتی ہیں۔ آپ یہ بھی فرمایاکرتے تھے کہ ہم نے خداکی عبادت چھوڑکر ،بتوں والے پیسوں کی عبادت شروع کردی ہے۔ اسی وجہ سے ہم رسوااورذلیل ہیں۔
جب کبھی اچھاسالن ہوتا توآپ اس میں پانی مِلا لیتے تھے تاکہ نفس کو لذّت نہ آسکے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آپ نے اپنے نفس پرکس قدر قابُو پالیاتھا۔ ایسے مردانِ حق کے لیے توحضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایاہے:
لَکھ ہزار کتاباں پڑھیاں پر ظالم نفس نہ مردا ھُو
باجھ فقیراں کسے نہ ماریا باہو ایہہ ظالم چور اندر دا ھُو
بڑے بڑے جلیل القدر علماء اورمشائخ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہماری دِلی بیماریوں کواگر شفاء نصیب ہوئی ہے توحضرت میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں ہوئی ہے۔
صحبتِ مردانِ حُر آدم گر است