ابوالسعود الحریمی رحمتہ اللہ عالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ابوالمظفر حسن بن نجم تاجر نے شیخ حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا حضور والا! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے سات سودینار کا مال تجارت ہمراہ لے جاؤں گا تو شیخ حمادرحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تم اس سال سفر کروگے تو تم سفر میں ہی قتل کردئیے جاؤگے اور تمہارا مال واسباب لوٹ لیا جائیگا۔
وہ آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا تو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد رحمتہ اللہ عالیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا چاہتے ہوتو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح وتندرست واپس آؤ گے میں اس کا ضامن ہوں۔ ’’آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفر پر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کیلئے حلب چلا گیا وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دئیے اور رکھ کر دیناروں کو بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا نیند کا غلبہ تھا کہ آتے ہی سوگیا خواب میں دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کردیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ کرکے اس کو مارڈالاہے۔ گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے فوراً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے۔ دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچااور واپسی کی تیار کرکے بغداد لوٹ آیا۔
جب بغداد شریف پہنچاتو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ وبچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازار میں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ ’’پہلے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضری دو کیوں کہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں ستر(70)مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے میں بدل دیا ۔ جب تاجر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جو کچھ شیخ حماد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے ستر(70) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لیے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل کے واقعہ کوبیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے کو صرف تھوڑی دیر کے لیے بھول جانے سے بدل دے۔(بہجتہ الاسرار صفحہ64)
ایک بی بی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئی کہ اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کے لیے اس کی تربیت فرمائیں۔ آپ نے اسے قبول فرماکر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز اس کی ماں آئی دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہوگیا اور اسے جَوکی روٹی کھاتے دیکھا جب آپؒ کے پاس حاضر ہوئی تو دیکھا کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تناول فرمایا تھا۔ عرض کی !حضورآپ مرغی کھائیں اور میرا بچہ جَوکی روٹی۔ یہ سن کر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھااور فرمایا ’’جی اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائیگا‘‘ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فوراً زندہ صحیح سالم کھڑی ہوکر آواز کرنے لگی۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے۔(بہجتہ الاسرار صفحہ128)
حضرت ابو عبداللہ محمدبن ابوالعباس موصلی رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادرجیلانی غوث صمدانی، قطب ربانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا میں ان کی حاجت نہیں رکھتااور قبول کرنے سے انکار فرمادیا اس نے بڑی عاجزی کی تب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہوکر بہہ گئیں۔ آپ نے فرمایا اے ابوالمظفر ! کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو۔ وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہوگیا۔
پھر حضرت سیدنا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ عزوجل کی قسم !اگر اس کے حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرمارہے تھے کہ بارش شروع ہوگئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بادل کو مخاطب کرکے) فرمایا میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کردیتا ہے تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی قسم! شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہوگئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی۔
حضرت عبدالملک ذیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر سے ایک عصادست اقدس میں لیے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ کاش حضور اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں۔ ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر حضور نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہوگیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر آپؒ نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا اس کے بعدحضور نے فرمایا بس اے ذیال ! تم یہی چاہتے تھے۔
ایک دفعہ دریائے دجلہ میں زور دار سیلاب آگیا ۔ دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور پریشان ہوگئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حدپر نصب کردیا اور دریاکو فرمایا کہ بس یہیں تک۔ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہوگیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کرنے لگا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے میں نے آج رات ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور میرے لیے ان سے دعا کا کہو۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نوجوان سے فرمایا کیا وہ میرے مدرسہ کے قریب سے گزرا تھا؟ نوجوان نے کہا جی ہاں پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔
پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آج رات اپنے والد کو سبزحلہ زیب تن کیے ہوئے خوش وخرم دیکھا ہے انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں عذاب قبر سے محفوظ ہوگیا ہوں اور جولباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برکت سے مجھے پہنایاگیا ہے پس اے میرے بیٹے ! تم ان کی خدمت میں حاضری کو لازم کرلو۔
پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر(تمہارے) مدرسہ پر ہوگا۔
(بہجتہ الاسرار صفحہ120،121،123،153،194)
اقتباس:
1۔ ’’حضور غوثِ اعظم اور عقائد نظریات‘‘ تصنیف مولانا محمدہاشم خان صاحب
2۔ ’’بہجتہ الاسرار ‘‘ تصنیف امام علی بن یوسف شطنوفی ؒ
3۔ ’’زبدۃ الآثار ‘‘تصنیف شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ