حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں دنیائے اسلام کے ہرشہر سے استفتاء (سوالات) آتے تھے، جن پر آپ کی آخری رائے طلب کی جاتی تھی، (جب سے آپ نے فتوی دینا شروع کیا) ایک رات بھی ایسی نہ گزری ہوگی کہ جس رات آپ کے پاس دینی سوالات نہ آئے ہوں اور آپ نے ان پر غور نہ کیا ہو اور پھر ان پر اپنی رائے نہ ثبت کی ہو۔زبدۃالآثار صفحہ53)
ایک مرتبہ بلادِ عجم سے فتوی طلب کیا گیا، ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرے گا کہ اس وقت کوئی دوسرا شخص وہ عبادت نہ کررہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں، تو اس صورت میں وہ شخص کیا کرے؟ اس سوال سے علماء وفقہاءِ حیران رہ گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے، جب یہی سوال حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً اس سوال کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مکۃ المکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ اپنے لیے خالی کرائے اور تنہا طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرلے، اس کی بیوی کو طلاقیں نہیں ہوں گی ۔ اس جواب سے علماء حیران رہ گئے۔
مفتیِ شرع بھی ہے قاضی ملت بھی ہے
علمِ اسرارسے ماہر بھی ہے عبدالقادرؒ
بہجتہ الاسرار میں ہے کہ حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرہ علوم میں کلام فرماتے تھے، حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسے میں درسِ تفسیر، درسِ حدیث ، درسِ علمِ الکلام اور درسِ مناظرہ ہوا کرتا۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ دن کے دونوں حصوں میں تفسیر ، علومِ حدیث ، علم الکلام،علمِ مناظرہ، علمِ اصول، علمِ نحو پڑھاتے اور دوپہر کے بعد قراء تیں پڑھاتے تھے۔
ایک دفعہ شیخ بزار رحمتہ اللہ علیہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ اس وقت دودھ نوش فرمارہے تھے۔ تھوڑاساآرام کیا اور چپ رہے ، پھرفرمانے لگے: اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنی کے ستردروازے میرے لیے کھول دئیے ہیں اور ہردروازہ زمین و آسمان کی پہنائیوں سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ پھر آپ نے معارف وخواص پر گفتگو شروع کی جس سے اہلِ مجلس مدہوش ہوگئے۔
سیدنا احمد رفاعی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: شیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نہیں۔(بہجتہ الاسرار صفحہ225،226،444)
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’اربعین سنۃ اصلی الصبح بوضو ء العشاء‘‘ میں چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز اداکرتا رہا۔
مزید فرماتے ہیں : پندرہ سال تک یہ حالت رہی کہ عشاء کی نماز پڑھتا، ایک پاؤں پر کھڑا ہوجاتا اور قرآن پڑھنا شروع کردیتا یہاں تک کہ سحری کے وقت قرآن پاک مکمل ہوجاتا۔
شیخ ابوعبد اللہ محمدبن ابوالفتح ہروی رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چالیس سال تک خدمت کی۔ اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی ساری رات عبادت میں گزارتے ) اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرماکر دورکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔ آپ عشاء پڑھ کر خلوت میں تشریف لے جاتے اور طلوع فجرتک عبادت میں مصروف رہتے، اس دوران کوئی آپ سے ملاقات نہ کرسکتا، اس دوران بعض اوقات خلیفہٗ بغداد بھی ملنے آیا مگر آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ میں پچیس سال عراق کے جنگلوں میں ریاضت کرتا رہا، میں لوگوں کو پہچانتا تھا مگر لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے، میرے پاس رجال الغیب اور جنوں کی جماعتیں آتیں اور میں انہیں خداشناسی کا راستہ دکھایا کرتا، چالیس سال تک میں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نمازادا کی، پندرہ سال تک نمازِ عشاء کے بعد ایک پاؤں پر کھڑا ہوکر قرآن پاک ختم کرتا رہا، میرا ہاتھ دیوار میں گڑے ہوئے کیل کی طرح رہتا تاکہ مجھے نیند نہ آئے حتیٰ کہ سحری کے وقت تک سارا قرآن پاک ختم کرلیتا، کبھی کبھی تین دن سے چالیس دن تک صرف گری پڑی چیزوں پر گزارا کرتا، میں بسلسلہٗ ریاضت گیارہ سال تک برج عجمی پر قیام پذیر رہا، میری اقامت کی وجہ سے ہی اس برج کا نام برجِ عجمی پڑگیا ، بسااوقات یوں ہوتا کہ میں اپنے اللہ سے عہد کرلیتا کہ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے کھلایا پلایا نہیں جائیگا۔ چنانچہ میں اسی حالت میں چالیس روز تک رہا، چالیس دن کے بعد ایک شخص آیا، میرے سامنے اس نے کھانا لگادیا اور خود چلا گیا۔ شدتِ بھوک کے عالم میں یہ کوئی بڑی بات نہ تھی کہ میں کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا مگر مجھے اپنی قسم یاد آگئی اور میں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا۔ بھوک کی بیتابی سے میرے پیٹ سے ایک آواز آئی جوالجوع الجوع (بھوک بھوک) پکاررہی تھی میں نے اس آواز کی بھی کچھ پروا نہ کی۔ پھر میرے پاس شیخ ابوسعید مخزومی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور میری اس آواز کو سنتے ہی فرمانے لگے:عبدالقادر !یہ کیسی آواز ہے؟ میں نے عرض کیا: یا حضرت! یہ میرے نفس کے قلق واضطراب کی شورش ہے لیکن میری روح میرے اللہ کے پاس پُرسکون ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: آؤ بابِ ازج کی طرف چلیں ۔ آپ نے وہاں پہنچ کر مجھے اپنی حالت پر چھوڑ دیا اور خود چلے گئے اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہنے لگے : اٹھو اور ابوسعید المخزومی کی طرف چلیں، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے سامنے کھانا رکھا تھا، میں نے پوچھا یا حضرت ! مجھے کھانا کون دے رہا ہے آپ نے بتایا یہ کھانا اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ آپ مجھے کھلاتے گئے حتیٰ کہ میں سیر ہوگیا پھر آپ نے مجھے اپنے ہاتھ خرقہ پہنایا۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ118،119،164)
قسمیں دے دے کے کھلاتاہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ تیرا چاہنے والا تیرا
حضرت بزاز رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضور غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ سے سنا کہ آپ ؒ کرسی پر بیٹھے فرمارہے تھے کہ میں نے حضور سیدِ عالم، نورمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا اے میرے نانا جان (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)! میں ایک عجمی مرد ہوں بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا بیٹا اپنا منہ کھولو۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ’’لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔
پھر میں نے نمازِ ظہر اداکی اور بیٹھ گیا میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے اس کے بعد میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا اے میرے والد !لوگ مجھ پر چلاتے ہیں پھر آپ نے فرمایا اے میرے فرزند !اپنا منہ کھولو۔
میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا میں نے عرض کیا کہ آپ نے سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا؟ تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے ادب کی وجہ سے پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔
پھرکیا تھا دورونزدیک سے لوگ آپ کا وعظ سننے کیلئے حاضر ہونے لگے، بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس مبارک میں شرکاء کا اجتماع بہت زیادہ ہوتا تھا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز مبارک جیسی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی ویسی ہی دوروالوں کو سنائی دیتی تھی یعنی دور اور نزدیک والوں کے لیے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز مبارک یکساں تھی۔(بہجتہ الاسرار صفحہ58،181)
شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس شریف میں کل اولیاء علیہم الرحمتہ اور انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ نیز جن اور ملائکہ تشریف فرما ہوتے تھے اور حبیب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی تربیت وتائید فرمانے کیلئے جلوہ افروز ہوتے تھے اور حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تو اکثر اوقات مجلس شریف کے حاضرین میں شامل ہوتے تھے اور نہ صرف خود آتے بلکہ مشائخ زمانہ میں سے جس سے بھی آپ علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو ان کو بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ’’جس کو بھی فلاح وکامرانی کی خواہش ہو اس کو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس شریف کی ہمیشہ حاضری ضروری ہے۔ (اخبارالاخبار صفحہ 13)
ولی کیا مرسل آئیں خود حضور آئیں
وہ تیری وعظ کی محفل ہے یا غوثؒ
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکو ،چور ،فساق وفجار ،فسادی اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ اقدس کی زیارت کی ، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر سے باہر تشریف لائے اور حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے سینے سے لگالیا اور انہیں خلعت پہنا کر ارشاد فرما یا اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں تمہارے علم شریعت ،علم حقیقت ،علم حال اور فعل حال میں محتاج ہوں۔
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے آقا تیرا