وہ گھر نہیں ہے کہیں ، گھر نہیں جہاں تیرا
مکاں تیرا ہے ، مکیں تو ہے ، لا مکاں تیرا
تجھی کو خوب ہیں معلوم حکمتیں اپنی
نہیں ہے تیرے سوا کوئی راز داں تیرا
نہ پائی کوئی جگہ تیرے نام سے خالی
مگر کہیں نہ ملا نام کو نشان تیرا
دہن کو دی ہے زباں اور زباں کو نعمتِ شکر
ادائے شکر کہاں تک کرے زباں تیرا
جدھر سے چاہے ، چلا آئے بے طلب طالب
نہ کوئی در ہے ترا اور نہ پاسباں تیرا
دماغ عرش پہ ہے سجدہ کرنے والوں کا
بہت بلند ہے اے دوست آستاں تیرا
بشر توکیا ہے ، فرشتوں کے ہوش اڑتے ہیں
ملانہ طائر سدرہ کو آشیاں تیرا
زبانیں اور بھی دے دے بیان وحدت کو
کہ اک زبان سے ہوتا نہیں بیاں تیرا
ملے زمین پہ حافظؔ کو اس کی مہمانی
فلک پہ تھا شبِ اسریٰ جو مہماں تیرا
حافظ پیلی بھیتی ؒ