نور اسلام - مارچ-2019

حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس سرہ العزیز > صفحہ 2

* اس زمانہ میں وجودمعاش میں سے تجارت کی نسبت زراعت اور باغبانی حلیت (حلال ہونے ) سے اقرب ہے ۔
* اہل اللہ کی صحبت میں ہمیشہ رہنا عقل معاد کی زیادتی کا ذریعہ ہے ۔صحبت سنت موکدہ ہے۔ہر روزیا ہردوسرے روزاولیااللہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے ۔ اور ان کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہیے ۔اگر ظاہری روزی کا اتفاق ہو تو مہینے یا دوسرے مہینے اپنے ظاہری وباطنی حالات کو خطوں کے ذریعہ سے عرض کرنا چاہیے اور اپنے مکان میں ان کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھنا چاہیے تاکہ غیبت کلی واقع نہ ہو۔مرض موت میں آپ نے اپنے متعلقین سے فرمایا کہ رسم و عادت کو چھوڑ و اور رسم خلق کے خلاف کرو اور ایک دوسرے سے اتفاق رکھو۔رسول اللہﷺ کی بعثت بشریت کی عادات و رسوم کے اٹھادینے کے لیے تھی ۔تم ایک دوسرے کی مددوتائید کرو اور تمام کاموں میں عزیمت پر عمل کرو۔جہاں تک ہو سکے عزیمت کو ہاتھ سے نہ جانے دواہل اللہ کی صحبت سنت موکدہ ہے ۔اس سنت پر خصوصاً و عموماً ہمیشگی کرواور صحبت کو ہرگز ترک نہ کرو ۔اگر تم امور مذکورہ پر استقامت اختیار کروگے تو اس استقامت سے تمہیں وہ حاصل ہوگا جو میری تمام عمر کا حاصل ہے اور تمہارے حالات ترقی پر ہوں گے اور اگر تم ان وصیتوں پر عمل نہ کرو گے تو پریشان ہو جاؤ گے۔(سبحان اللہ)
اولیاء اللہ اپنی قبروں میں زندہ ہیں 
تحریر:محمداویس ندیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَکَانُوْایَتَّقُوْنَ(یونس63)
ترجمہ:وہ لوگ جوایمان لائے ہیں اوروہ خداسے ڈرتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو یہ انعام دے رکھاہے کہ نہ انہیں کسی قسم کا خوف ہوتا ہے اورنہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔چنانچہ فرمایاگیا:اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْن (یونسں62)’’بے شک اولیاء اللہ کونہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے‘‘
یوں تو تمام مفسرین نے اپنے اپنے ذوق اور استعداد کے مطابق اس آیت کریمہ کی تفسیرکی ہے لیکن حق یہ ہے کی عارف باللہ علامہ مولاناقاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان میں جتنی دلکشی، شیرینی اورجامعیت ہے اس کاجواب نہیں۔ اس لیے مَیں انہی کی خوشہ چینی کرتے ہوئے چندحقائق ہدیہ قارئین کرتاہوں۔ولی کے لغوی معنی کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ْ’ اَلْوَلِیُّ الْقُرْبُ وَالدُّنُوُّ یعنی ولی کے معنی قرب اورنزدیک ہے۔ ولی اس سے اسم ہے۔ اس کامعنی ہے قرب ، محب، صدیق اورمددگار۔
وَفِی الْقَامُوْسِ الْوَلِیُّ الْقُرْ بُ وَالدُّنُوُّ وَالْوَلِیُّ اِسْمُٗ مِنْہُ بمعنی اَلْقَرِیْبُ وَالْمُحِبِّ وَالصِّدِّیْقِ وَالنَّصِیْرِ۔پھرفرماتے ہیں کہ قرب کی دوقسمیں ہیں، ایک وہ قرب جوہرانسان بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ کواپنے خالق سے ہے اوراگر یہ قرب نہ ہوتو کوئی چیز موجود نہ ہوسکے۔نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد(ہم شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں)میں اسی قرب کی طرف اشارہ ہے۔ دوسراقرب وہ ہے جو صرف خاص بندوکومیسرہے۔اسے قربِ محبت کہتے ہیں۔ قرب کی ان دوقسموں میں نام کے اشتراک کے سواکوئی وجہ اشتراک نہیں۔ قربِ محبت کے بے شمار درجے ہیں۔ ایک سے ایک بلند، ایک سے ایک اعلیٰ ، ایمان شرطِ اول ہے۔ دولتِ ایمان سے مشرف ہونے کے بعد اہل عزم وہمت ترقی کے مختلف درجات طے کرتے ہوئے آگے بڑھے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس بلندمقام پرفائز ہوجاتے ہیں۔ جس کی وضاحت حضور رحمتِ عالمیان ﷺ نے یوں بیان فرمائی :لَا یَزَالُ الْعَبْدُیَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِا لنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِنَااَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہٗ اَلَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہٗ اَلَّذِیْ یَبْصُربِہٖٖ (رواہ البخاری عن ابی ھریرہ) ترجمہ:اللہ تعالیٰ ارشادفرماتاہے کہ بندہ نفلی عبادات سے میرے قریب ہوتارہتاہے۔یہاں تک کہ مَیں اس سے محبت کرنے لگتاہوں اورجب مَیں اس سے محبت کرنے لگتاہوں تو مَیں ہی اس کے کان ہوجاتاہو ں جن سے وہ سنتاہے اورمَیں ہی اس کی آنکھ ہوجاتاہوں جس سے وہ دیکھتاہے۔(رواہ البخاری)
اوراس قُرْبِ محبت کاسب سے بلنداورارفع مقام وہ ہے جہاں محبوبِ رب العالمین ﷺ فائزہیں۔ حضورﷺ کاطائرہمت جہاں محوپروازہے ان رفعتوں کو کوئی جان نہیں سکتا۔ سوائے اس ذات بے ہمتاکے جس نے اپنے محبوب بندے کو یہ ہمتیں اور حوصلے ارزانی فرمائے۔ وَاَعْلیٰ دَرَجَانِہٖ نَصِیْبُ الْاَنْبِیَاءِ وَنَصِیْبُ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تَرُقِّیَاتٍ لَا تَتَنَاھٰی اِلیٰ اَبَدِالْاٰ بِدِیْنَ(مظہری)
صوفیاء کرام کی اصطلاح میں’’ولی‘‘اس کوکہتے ہیں جس کادل ذکرِ الہٰی میں مستغرق رہے۔ شب وروز تسبیح وتہلیل میں مصروف ہو۔ اس کادل محبتِ الہٰی سے لبریز ہواور کسی غیرکی وہاں گنجائش تک نہ ہو۔ وہ اگر کسی سے محبت کرتاہے تواللہ تعالیٰ کے لیے اورکسی سے نفرت کرتاہے تواللہ تعالیٰ کے لیے۔ یہی وہ مقام ہے جسے فنافی اللہ کامقام کہتے ہیں۔ اَلْوَلِیُّ فِیْ اِصْطِلَاحِ الصُّوْفِیَّۃٍٍٍٍ مَنْ کَانَ قَلْبُہٗ مُسْتَغْرِ قًا فِْی ذَکْرِاللہِ یُسَبِحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَلَایَفْتَرُوْنَ مُمْتَلِیَّابِحُبِّ اللہِ تَعَالیٰ لَا یَسْعُ فِیْہِ غَیْرَہٗ وَلَوْ کَانُوْاآبَاءُھُمْ لَوْاَبْنَاءُ ھُمْ اَوْاِخْوَانَھُمْ وَعَشِیْرَتَھُمْ فَلَایُحِبُّ اَحْدًاِلَّا لِلّٰہَ یَبْغِضُ اِلَّا لِلّٰہِ الخ(مظہری)
مرتبہ ولایت پرفائزہونے کے اسباب کاذکرکرتے ہوئے علامہ موصوف فرماتے ہیں کہ مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یابلاواسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت ﷺکے انوار کاانعکاس ہونے لگے اورپرتوجمال محمدی علی صاحبہ اجمل الصلوات واطیب التسلیمات قلب وروح کو منورکردے اوریہ نعمت انہیں کوبخشی جاتی ہے جوبارگاہِ رسالت میںیاحضورﷺکے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں۔
عدلِ فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 
تحریر: محمدطلحہ ارشد
دنیا میں معاشی مساوات پیدا کرنے کے لئے جو نقشہ اسلام نے پیش کیا ہے وہ نہ صرف معقول اور قابل عمل ہے بلکہ حد درجہ مؤثر بھی ہے۔ اسلام نے مال کو زندگی کی ایک ’’ایک اہم بنیاد ‘‘ اور ’’اللہ تعالیٰ کا فضل‘‘ قرار دے کر اس کے کسب و حصول کو ضروری بلکہ بابرکت ٹھہرایا اور کسب حال کے لئے بدیانتی، خود غرضی اور انسان کشی کی صورتوں کو مذموم اور قابل نفرت بیان کر کے ان سے اجتناب کی تاکید کی ہے۔ معاشرے کی غذائی اور معاشی ضرورتوں کی کفالت کے لئے زکوٰۃ و صدقات کے علاوہ بھی کئی طریقے اختیار کئے مذکورہ وسائل سے ضرورت مندوں کی امداد نہ کی جاسکتی تو شہر کے مالداروں کی مزید امداد بھی لی جاتی تھی۔ ذاتی ملکیت اسلام میں جائز ہے مگر یہ احتیاط ضروری ہے کہ دولت و سرمایہ کو معاشرے کے چند افراط کی ملکیت بن جانے سے روکا جائے۔ نفع عام کی چیزیں افراد کی بجائے حکومت کی ملکیت قرار دیں۔ اس طرح زمین اور محنت کے سرمائے میں ہمیشہ ایک توازن و اعتدال مدِنظر رکھا۔