ایک دن حضرت امام ثفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ آپ خز کا ایک جبہ اور خز کاکمبل اوڑھے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت امام ثفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے کہااے فرزندِ رسول !یہ آپ کے آباؤاجداد کالباس نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا:’’وُہ تنگدستی کے زمانہ میں تھے۔ یہ امارت کازمانہ ہے‘‘یہ کہتے ہوئے آپ نے خز کاجُبہ اٹھاکر اس کے نیچے پشم کاکھردرا جُبہ دکھایااورفرمایا:’’اے ثوری !یہ ہم نے اللہ کے واسطے پہناہے اوروُہ تمہارے واسطے ۔جو اللہ کے واسطے ہے اس کوہم نے پوشیدہ رکھاہے اور جوتمہارے واسطے ہے اس کوہم نے ظاہر رکھاہے‘‘۔
ایک دفعہ حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’اے فرزندرسول ﷺ مجھے کوئی نصیحت فرمائیے۔ چونکہ میرادِل سیاہ ہوگیاہے‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’اے اباسلیمان !آپ زاہد زمانہ ہیں۔ آپ کومیری نصیحت کی کیاضرورت ہے‘‘؟حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا:’’اے فرزندِرسول آپ کوسب پر فضیلت حاصل ہے۔ اس لیے آپ پرواجب ہے کہ آپ سب کونصیحت فرمائیں‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’یااباسلیمان !مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قیامت کے دِن میرے جدِ بزرگوار میرا دامن نہ پکڑیں اوریُوں فرمائیں کہ میراحق متابعتاً کیوں ادانہیں کیا۔ چونکہ یہ کام نسبت کی شرافت پر موقوف نہیں ہے بلکہ درگاہِ ربُ العزت میں عمل کی پسندیدگی پر معتبرہے‘‘ یہ سُن کر حضرت داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ بہت روئے۔ بارگاہِ ایزدی میں عرض کیاکہ اے پروردِگار !جس شخص کی سرشت نبوّت کے آب وگِل سے ہے۔جس کی طبیعت کی ترکیب آثارِ رسالت سے ہوئی ہے۔ جس کے جدِ بزرگوار رسولِ اکرم ﷺ ہیں۔ ماں حضرت ام فروہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاہیں۔ جب وُہ ایسی حیرانی میں ہیں تو داؤد طائی تُوکِس شمارہ میں ہے کہ اپنے حال پرنازاں ہو۔
حضرت امام مالک بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی زیارت کیاکرتاتھا۔جلوت میں حسن خلق کے باعث آپ کے مزاج میں مزاح وتبسّم زیادہ تھا مگر جس وقت اُن کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا ذکرآتا تواُن کارنگ زرد ہوجاتاتھا۔ مَیں نے آپؓ کو حدیث شریف بیان کرتے ہوئے کبھی بے وضو نہیں دیکھا۔ اُن کی خدمت میں میری آمدورفت دیرتک رہی مگر جب کبھی آپ سے ملا تو آپ کونماز پڑھتے ہوئے یاخاموش یا کلام اللہ پڑھتے ہوئے ہی پایا۔ آپ خلوت میں فضول اور لغوگفتگو سے احترازکرتے تھے اورعلومِ شرعیہ کے عالم اورخُداترس تھے۔
ایک مرتبہ حضرت ثفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے عرض کیاکہ کچھ نصیحت فرمائیے۔آپ نے فرمایا:’’اے ثفیان ثُوری! دروغ کو مروّت نہیں ہوتی۔ حاسد کوراحت نہیں ہوتی۔ بدخلق کوسرداری نہیں ہوتی۔ ملوک کواخوّت نہیں ہوتی‘‘۔عرض کیا کچھ اورفرمائیے۔آپ نے فرمایا:’’اے ثفیان ثوری !اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے محارم سے بچاناتاکہ عابد ہو۔جوکچھ قسمت میں ہو اس پرراضی ہونا تاکہ مسلم رہو۔ فاجر سے صحبت نہ رکھناکہ تجھ پر فجور غالب نہ آجائے۔ اپنے معاملہ میں ایسے آدمیوں سے مشورہ کرناجو اطاعتِ خُدا خُوب کرتے ہوں‘‘۔ پھر ثفیان ثُور ی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیاکچھ اور فرمائیے۔حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا:’’اے ثفیان ثُوری !جوشخص چاہے کہ اس کی عزت بلاذات وقبیلہ کے ہو،ہیبت بلاحکومت ہو۔اس سے کہوکہ گناہ چھوڑ دے اطاعت اختیارکرے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’جوشخص ہرآدمی کے ساتھ صحبت رکھتاہے وُہ سلامت نہیں رہتا۔ جوکوئی بُرے راستے پرجاتاہے اسے اتہام لگتاہے۔ جوشخص اپنی زبان قابُو میں نہیں رکھتاوہ پشیمان ہوتاہے۔ جوکوئی اللہ تعالیٰ سے انس نہیں رکھتاہے اسے خلق سے وحشت ہوجاتی ہے‘‘۔آپ نے فرمایا:’’بہت سے ایسے گناہ ہیں کہ جن کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہوجاتاہے۔ بہت سی ایسی عبادتیں ہیں کہ جن کی وجہ سے بندہ اللہ تعالیٰ سے دُورہو جاتاہے۔ کیونکہ مطیع مغرور گنہگار ہوتاہے اورگنہگارنادم مطیع ہوتاہے‘‘۔
ایک روز حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے دریافت کیاکہ عقلمند کِس کوکہتے ہیں؟حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جواب دیا’’ عقلمند وُہ ہے جوخیروشر میں تمیزکرے‘‘۔ آپ نے فرمایا:’’یہ تمیزتو جانوروں میں بھی ہوتی ہے کہ مارنے والے اورچارہ دینے والے میں تمیز رکھتے ہیں‘‘۔ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے عرض کیاکہ آپ کے نزدیک عقلمند کون ہے؟آپ نے فرمایا:’’عقلمند وُہ ہے جودوخیر اوردو شر میں امتیاز کرے۔ خیر میں خیرالخرین کو اختیار کرے اورشرمیں شرالشرین کو‘‘۔آپ سے کِسی نے دریافت کیاکہ درویش صابر افضل ہے یا تونگر شاکر؟آپ نے فرمایا:’’درویش صابر افضل ہے ۔ تونگر کادِل کیسہ میں لٹکا رہتا ہے اوردرویش کا اللہ تعالیٰ میں۔فرمایا:عبادت بلاتوبہ درست نہیں ہوتی چونکہ اللہ تعالیٰ نے توبہ کوعبادت پر مقدم کیاہے۔(التائبون العابدون)توبہ ابتدائے مقامات اور عبودیت انتہائے مقامات اوردرجات ہے۔چارچیزوں سے شریف آدمی کوعار نہیں کرنی چاہیے (۱)اپنے والد کی تعظیم کے لیے کھڑاہونا(۲)اپنے مہمان کی خدمت کرنا(۳)اپنے چوپایہ کی خبرلیناخواہ اس کے سوغلام ہوں(۴)اپنے استاد کی خدمت کرنا۔نیکی سوائے تین خصلتوں کے تمام وکامل نہیں ہوتی(۱)اسے جلدی کرنا(۲)اسے چھوٹا سمجھنا(۳)اسے چھپاناجب دنیا کسی انسان کے پاس جاتی ہے۔ اسے غیروں کی خوبیان بھی دیتی۔اور جب اس سے منہ پھیر لیتی ہے تواس کی ذاتی خوبیاں بھی اس سے چھین لیتی ہے۔ جب تو گناہ کرے تومعافی مانگ۔چونکہ گناہ مردوں کے گلے میں پیدائش سے پہلے ڈالے گئے ہیں اور ان پر اصرارکرنا کمال درجہ کی ہلاکت ہے ۔فرمایا جو شخص اپنے رزق میں تاخیر پائے ۔اسے طلبِ مغفرت زیادہ کرنی چاہیے اور جو شخص اپنے مالوں میں سے کسی مال پر ناز کرے اور اس کی بقاچاہے تو اس کویوں کہنا چاہیے۔( ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ)فرمایا۔ علمائے شریعت پیغمبروں کے امین ہیں جب تک کہ بادشاہوں کے دروازوں پر نہ جائیں۔آپ کو جب کسی چیز کی حاجت ہوتی تویوں دعاکرتے ۔پروردِگارا!مجھے فلاں چیز کی حاجت ہے۔ آپ کی دعا تمام نہ ہوتی کہ وہ چیز آپ کے پہلومیں موجود ہوتی۔ فرمایا جس نے اللہ کوپہچانا اس نے ماسواسے منہ پھیر لیا۔ آپ نے فرمایا:’’مجھے تعجب ہے اس شخص پرجو غم میں مبتلاہو ۔ وہ یہ کیوں نہیں کہتا(لا الہ الا انت سبحٰنک انی کنت من الظٰلمین )چونکہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد فرماتاہے( فاستجبنالہ و نجینہ من الغم وکذلک نجی المومنین)اورتعجب ہے اس پر جوکسی آفت سے ڈرتاہو۔وُہ یہ کیوں نہیں کہتا (حسبنا اللہ ونعم الوکیل)کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے(فانقلبوابنعمہ من اللہ و فضل لم یمسھم سوء)اورتعجب ہے اس پر جولوگوں کے مکر سے ڈرتا ہے وُہ یہ کیوں نہیں کہتا (و افوض امری الی اللہ ط ان اللہ بصیر بالعباد)کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے(فوقہ اللہ سیئات مامکروا)اورتعجب ہے اس پر جوجنت میں رغبت کرتاہے وُہ یہ کیوں نہیں کہتا(ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ) کیونکہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے(نعسی ربی ان یوتین خیرامن جنتک)۔
آپ کی تاریخ وفات کے متعلق کچھ اختلاف ہے۔ مصنف حدیقہ الاسرار فی اخبار الاخیار نے لکھاہے کہ15رجب بروز جمعہ 149ھ کو آپ کی وفات ہوئی صاحب تواریخ ظہرت نامہ اور صاحب مکتوب نطاب شق البدر میں بروایت حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی تاریخ وفات 15رجب 148 ھ بروز دوشنبہ بوقتِ صبح ہے۔ مصنف ’’انوارلاثانی‘‘ نے لکھاہے کہ آپ نے پندرھویں رجب 140 ھ مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا اور مصنف تذکرہ مشائخِ نقشبندیہ نے لکھاہے کہ آپ نے مدینہ منورہ میں15رجب 148 ھ میں اڑسٹھ سال کی عمر میں وصال فرمایااورجنت البقیع میں اپنے دادا پاک کے قریب قبہ اہلِ بیت میں مدفون ہوئے۔
1مختصراردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور 2 مختصراردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی ،لاہور مکتوباتِ احمدیہ دفتراوّل مکتوب 290۔4مکتوب نظاب5صوفیائے نقشبند:حکیم سیّد امین الدین احمد 6صوفیائے نقشبند: حکیم سید امین الدین احمد 7ایضاً 8مختصراردو دائرہ معارفِ اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی ،لاہور۔9صوفیائے نقشبند: حکیم سید امین الدین احمد 10 صوفیائے نقشبند: حکیم سید امین الدین احمد 11صوفیائے نقشبند: حکیم سید امین الدین احمد12صوفیائے نقشبند: حکیم سید امین الدین احمد13صوفیائے نقشبند: حکیم سید امین الدین احمد